توانائی بحران سے جڑے قرض کی تشکیل نو حکومتی اشتراکِ عمل سے مکمل، وزیر خزانہ نے اسے مالی نظم و ضبط کی علامت قرار دیا

وزارت خزانہ نے پاکستان کے توانائی بحران سے جڑے سب سے بڑے مالی مسئلے — 1225 ارب روپے کے گردشی قرض — کے کامیاب حل کا اعلان کیا ہے، جسے وزیراعظم کی ٹاسک فورس، وزارت توانائی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، پاکستان بینکنگ ایسوسی ایشن اور 18 شراکت دار بینکوں کے ایک تاریخی اشتراک سے ممکن بنایا گیا۔ یہ اقدام وفاقی حکومت کی مالیاتی پالیسیوں میں شفافیت اور نظم و ضبط کی طرف ایک اہم پیش رفت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ اہم کامیابی وزیراعظم کی ٹاسک فورس کے سربراہ اور وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری کی قیادت میں حاصل ہوئی، جنہیں وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب، وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی، نیشنل کوآرڈینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد ظفر اقبال، گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد اور سیکرٹری خزانہ امداداللہ بوسال کی مکمل تائید حاصل رہی۔ حکومت کی اس کوشش کو توانائی کے شعبے میں دیرینہ مالیاتی مسائل کو پائیدار بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ایک سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔
منصوبے کے تحت گردشی قرض کے دو حصے بنائے گئے: پہلا، 660 ارب روپے کے موجودہ قرض کی تنظیمِ نو کی گئی، جس کا مقصد موجودہ بینکنگ قرضوں کی شرائط کو نئے ڈھانچے میں لانا تھا؛ دوسرا، 565 ارب روپے کا نیا قرض حاصل کیا گیا تاکہ پاور پروڈیوسرز کے واجبات ادا کیے جا سکیں۔ اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ عوام پر اس عمل کے ذریعے کوئی نیا مالی بوجھ نہیں ڈالا گیا، کیونکہ قرض کی اقساط کی ادائیگی ماضی میں نافذ کیے گئے فی یونٹ 3.23 روپے سرچارج سے کی جائے گی، جس کا اطلاق پہلے ہی صارفین پر ہو چکا ہے۔
یہ مالی معاہدہ نہ صرف توانائی کے شعبے میں مالی نظم و ضبط کو مضبوط کرے گا بلکہ بینکنگ سیکٹر کے اندر اعتماد کی بحالی کا بھی باعث بنے گا۔ 660 ارب روپے کی خودمختار حکومتی ضمانتیں بحال ہونے سے پاکستان کے زرعی، چھوٹے کاروباری، رہائشی، تعلیمی اور صحت کے شعبوں میں لیکویڈیٹی یعنی نقدی کی دستیابی میں بہتری آئے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ دوسرے شعبے بھی اس مالی ڈھانچے کے استحکام سے مستفید ہوں گے۔

وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے اس پیش رفت کو پاکستان کے مالیاتی نظام میں اعتماد کی بحالی اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی جانب ایک فیصلہ کن قدم قرار دیا۔ ان کے مطابق، “یہ کامیابی اجتماعی قیادت، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور عوام و نجی شعبے کے اشتراک کا مظہر ہے۔ حکومت اس کامیابی کو ایک مثال بنانا چاہتی ہے کہ پاکستان اپنے ڈھانچہ جاتی مسائل کو جدید طریقوں، اتحاد اور عزم سے حل کر سکتا ہے۔”
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ توانائی کے شعبے میں موجود دیگر مالی رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے اصلاحات کا تسلسل جاری رہے گا، اور حکومت پائیدار حل کی جانب بڑھنے کے لیے پرعزم ہے۔ ان کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت توانائی کے شعبے میں شفاف اور مالیاتی طور پر مستحکم نظام قائم کرنا چاہتی ہے جو نہ صرف پاور پروڈیوسرز بلکہ صارفین اور سرمایہ کاروں کے لیے بھی قابلِ بھروسہ ہو۔
پاکستان میں گردشی قرض کا مسئلہ پچھلی دو دہائیوں سے توانائی کے شعبے کے لیے ایک بنیادی رکاوٹ رہا ہے۔ ہر حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے مختلف منصوبے متعارف کرائے، لیکن زیادہ تر حل عارضی ثابت ہوئے۔ ماضی میں ادائیگیوں کی تاخیر اور مالیاتی بے ترتیبی نے پاور پلانٹس کی پیداوار اور بجلی کی ترسیل کو متاثر کیا، جس کا براہِ راست اثر عوام پر پڑا۔ موجودہ معاہدہ پہلی بار ایک مربوط اور بینکنگ سیکٹر کے ذریعے تسلیم شدہ ڈھانچہ جاتی حل فراہم کرتا ہے، جس سے مستقبل میں اسی طرح کے مالی بحرانوں کی روک تھام کی امید کی جا رہی ہے۔
اس اقدام سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ پاکستان کی مالیاتی قیادت بین الاقوامی مالیاتی اداروں، بالخصوص آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے اصلاحاتی پروگرام پر عمل درآمد کے لیے سنجیدہ ہے۔ کیونکہ توانائی کے شعبے کی مالیاتی بہتری آئی ایم ایف کی جانب سے دی جانے والی پالیسی سفارشات کا ایک اہم جزو ہے۔
اس پیش رفت کے ذریعے حکومت نے ایک ایسا راستہ دکھایا ہے جو نہ صرف موجودہ مالی مسائل کو حل کرتا ہے بلکہ مستقبل میں معاشی استحکام کی بنیاد بھی رکھتا ہے۔ توانائی کے شعبے میں مالیاتی توازن اور شفافیت قائم ہونے سے ملکی معیشت کے دیگر شعبے بھی اعتماد اور سرمایہ کاری میں بہتری کے امکانات سے مستفید ہوں گے۔
1225 ارب روپے کا گردشی قرض اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس ماڈل کو مستقبل میں دیگر پیچیدہ مالی مسائل کے حل کے لیے بھی اپنائے گی؟ وزیر خزانہ کے بیانات اور ادارہ جاتی عزم کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ انتظامیہ اصلاحاتی عمل میں سنجیدگی دکھا رہی ہے اور معیشت کو دیرپا بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے کوشاں ہے۔