سہیل آفریدی، ارباب زرک، سردار جہان اور مولانا لطف الرحمٰن امیدوار، حتمی فہرست آج جاری ہوگی

خیبر پختونخوا میں وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں، جہاں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے کاغذاتِ نامزدگی کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ چار امیدواروں نے باضابطہ طور پر اپنے کاغذات جمع کرادیے ہیں، جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کی جانچ پڑتال کے بعد آج شام امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی جائے گی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سہیل آفریدی، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ارباب زرک، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سردار جہان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا لطف الرحمٰن وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے میدان میں ہیں۔ نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب کل صبح 10 بجے ہونے والے خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں شو آف ہینڈ کے ذریعے کیا جائے گا۔
پارلیمانی ذرائع کے مطابق، پی ٹی آئی کو اس وقت ایوان میں واضح اکثریت حاصل ہے، کیونکہ اسے تقریباً 90 آزاد اور اتحادی ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے لیے ایوان کے کم از کم 73 ووٹ درکار ہیں، اس لحاظ سے سہیل آفریدی کے انتخاب کے امکانات سب سے زیادہ ہیں۔
یہ تبدیلی اس وقت سامنے آئی جب 8 اکتوبر کو پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے تصدیق کی تھی کہ موجودہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے پارٹی قیادت کی ہدایت پر استعفیٰ دے دیا ہے اور ان کی جگہ سہیل آفریدی کو وزارتِ اعلیٰ کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

علی امین گنڈا پور، جو فروری 2024 میں پی ٹی آئی کی قیادت میں وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے، نے اپنے عہدے سے دستبردار ہوتے ہوئے کہا کہ وہ عمران خان کی ہدایت پر پارٹی کے مفاد میں استعفیٰ دے رہے ہیں۔ انہوں نے بیان میں کہا کہ “یہ فیصلہ پارٹی نظم و ضبط کے تحت کیا گیا ہے اور میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں۔”
ترجمان گورنر ہاؤس خیبر پختونخوا کے مطابق، 11 اکتوبر کی دوپہر ڈھائی بجے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا استعفیٰ باقاعدہ طور پر گورنر کو موصول ہوگیا۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ آئینی ضابطے کے مطابق استعفے کی جانچ پڑتال کے بعد وزارتِ اعلیٰ کا انتخاب شفاف انداز میں آگے بڑھایا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق، پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار سہیل آفریدی صوبے کے جنوبی اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں اور پارٹی کے مضبوط تنظیمی رہنما تصور کیے جاتے ہیں۔ انہیں عمران خان اور پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ پارٹی قیادت کا مؤقف ہے کہ نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا مقصد “ادارتی مضبوطی” اور “نئی سیاسی توانائی” فراہم کرنا ہے تاکہ صوبائی حکومت وفاقی سطح پر بہتر روابط قائم کر سکے۔
دوسری جانب، اپوزیشن جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) نے علیحدہ علیحدہ امیدوار نامزد کیے ہیں، لیکن ان کے درمیان متفقہ امیدوار پر کوئی اتفاق نہیں ہو سکا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار ارباب زرک کا کہنا ہے کہ “ہم جمہوری عمل کا حصہ بن رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپوزیشن اپنی موجودگی محسوس کرائے۔” مسلم لیگ (ن) کے سردار جہان نے کہا کہ “یہ انتخاب صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ صوبے کے مستقبل کی سمت کا فیصلہ ہوگا۔”
پارلیمانی مبصرین کے مطابق، اپوزیشن کے مختلف امیدواروں کے میدان میں آنے سے ووٹ تقسیم ہونے کا امکان ہے، جس سے پی ٹی آئی کے امیدوار کے لیے راہ مزید ہموار ہوسکتی ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں کل کے اجلاس میں 145 اراکین میں سے کم از کم 73 ووٹ لینے والا امیدوار وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوگا۔ اسپیکر کے مطابق، ووٹنگ شو آف ہینڈ کے ذریعے ہوگی تاکہ شفافیت برقرار رہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے علی امین گنڈا پور کی جگہ سہیل آفریدی کو لانے کا فیصلہ اندرونی تنظیمی تبدیلی کے تناظر میں کیا، تاکہ پارٹی انتظامی سطح پر زیادہ مؤثر طرزِ حکمرانی پیش کر سکے۔ گنڈا پور کی وزارت کے دوران انتظامی چیلنجز، امن و امان کے مسائل اور وفاقی حکومت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔
اگر سہیل آفریدی کل کے انتخاب میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ خیبر پختونخوا کے 23ویں وزیراعلیٰ ہوں گے۔ توقع ہے کہ پی ٹی آئی کے نئے وزیراعلیٰ کی تقریبِ حلف برداری آئندہ 24 گھنٹوں میں گورنر ہاؤس پشاور میں ہوگی، جس کے بعد کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ شروع ہوگا۔
یہ سیاسی تبدیلی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب خیبر پختونخوا حکومت کو مالی بحران، توانائی منصوبوں میں تاخیر، اور قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد انتظامی چیلنجز کا سامنا ہے۔ نئی قیادت کے لیے یہ ایک بڑا امتحان ہوگا کہ وہ صوبے کے عوام کا اعتماد بحال کرے اور وفاقی حکومت کے ساتھ روابط کو مؤثر بنائے۔