تحریک لبیک پاکستان کے احتجاجی مارچ کے تیسرے روز پنجاب بھر میں حالات کشیدہ، ٹوئن سٹیز میں سڑکیں بند اور انٹرنیٹ سروس معطل، حکومت کا سخت ایکشن جاری

تحریک لبیک پاکستان (TLP) کے ملک گیر احتجاجی مارچ نے تیسرے روز بھی پنجاب بھر میں نظام زندگی کو مفلوج کر دیا ہے، خصوصاً راولپنڈی اور اسلام آباد میں معمولات زندگی شدید متاثر ہیں۔ سکیورٹی اداروں نے وفاقی دارالحکومت کے تمام داخلی راستوں پر کنٹینرز لگا کر شہر کو بند کر دیا ہے جبکہ موبائل اور انٹرنیٹ سروس جزوی طور پر معطل ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ امن و امان کی بحالی اولین ترجیح ہے، تاہم مظاہرین اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
احتجاجی تحریک، جسے TLP نے “لبیک یا اقصیٰ ملین مارچ” کا نام دیا ہے، لاہور سے اسلام آباد کی جانب بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پولیس نے مختلف مقامات پر راستے بند کر کے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکا، جس کے نتیجے میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔ لاہور، مریدکے اور گوجرانوالہ میں پولیس اور کارکنوں کے درمیان تصادم کے دوران درجنوں افراد زخمی ہوئے جبکہ 70 سے زائد کارکن گرفتار کیے گئے۔ لاہور پولیس کے مطابق مظاہرین نے پتھراؤ کیا اور بعض مقامات پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔
مریدکے میں مظاہرین نے رات بھر کے لیے کیمپ لگایا اور اعلان کیا کہ وہ اسلام آباد پہنچنے تک مارچ جاری رکھیں گے۔ دوسری جانب حکومت نے کسی بھی قسم کے احتجاجی قافلے کو اسلام آباد داخل ہونے سے روکنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
راولپنڈی اور اسلام آباد میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ فیض آباد انٹرچینج مکمل طور پر بند ہے جبکہ مری روڈ، آئی جے پرنسپل روڈ اور کٹی پہاڑی کے قریب کنٹینرز لگا دیے گئے ہیں۔ میٹرو بس سروس معطل ہے، تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں اور شہری گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ شہریوں کو دفتر، اسپتال یا دیگر ضروری مقامات تک پہنچنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ “کسی بھی شخص کو دارالحکومت کے اندر احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تمام مرکزی شاہراہوں پر نفری تعینات ہے تاکہ امن و امان برقرار رکھا جا سکے۔” ان کے مطابق صورتحال قابو میں ہے، تاہم شہریوں سے کہا گیا ہے کہ غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔
دوسری طرف TLP کے رہنماؤں نے حکومت پر طاقت کے استعمال کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ “ہم پرامن انداز میں احتجاج کر رہے تھے لیکن حکومت نے زبردستی راستے بند کر کے تشدد کو ہوا دی۔” ان کا کہنا ہے کہ مارچ کا مقصد فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانا اور غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔
وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کسی بھی قسم کی بغاوت یا تشدد برداشت نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ “احتجاج ہر شہری کا حق ہے لیکن عوامی املاک کو نقصان پہنچانا یا راستے بند کرنا قانون کے خلاف ہے۔”
احتجاج کے تیسرے روز بھی لاہور سے مریدکے، گوجرانوالہ، گجرات، راولپنڈی اور اسلام آباد تک عوامی نقل و حرکت محدود ہے۔ ریسکیو حکام کے مطابق سڑکوں کی بندش کے باعث کئی ایمبولینسز تاخیر کا شکار ہیں، جبکہ مارکیٹیں اور پبلک ٹرانسپورٹ جزوی طور پر بند ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ TLP کی احتجاجی مہم حکومت کے لیے ایک بڑا امتحان ہے، کیونکہ یہ احتجاج محض مذہبی جذبات تک محدود نہیں بلکہ سیاسی اثرات بھی رکھتا ہے۔ ماضی میں بھی TLP نے فیض آباد دھرنے سمیت کئی مرتبہ حکومتوں کو دباؤ میں لایا، جس کے نتیجے میں پالیسی فیصلوں پر اثر پڑا۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے Associated Press کے مطابق، مظاہرے اُس وقت شدت اختیار کر گئے جب پولیس نے مظاہرین کو لاہور سے نکلنے سے روکا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں موبائل انٹرنیٹ سروس معطل کیے جانے کے بعد شہریوں کو رابطے کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔
موجودہ صورتحال میں حکومت اور مظاہرین کے درمیان کوئی باضابطہ مذاکرات شروع نہیں ہوئے۔ تاہم سیاسی ذرائع کے مطابق پسِ پردہ رابطے جاری ہیں تاکہ کوئی درمیانی راستہ نکالا جا سکے اور مزید تصادم سے بچا جا سکے۔
تیسرا دن مکمل ہونے کے باوجود حالات میں بہتری کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ فیض آباد، راولپنڈی اور اسلام آباد کے داخلی راستوں پر کشیدگی برقرار ہے، اور شہری بے یقینی کی فضا میں دن گزار رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ امن و امان بحال ہونے تک سکیورٹی اقدامات جاری رہیں گے، جبکہ TLP قیادت نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے “لبیک یا اقصیٰ” مارچ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
احتجاج کے پھیلاؤ اور شہریوں کو درپیش مشکلات نے ملک میں ایک مرتبہ پھر یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ حکومت مذہبی جماعتوں کے عوامی دباؤ اور سڑکوں پر طاقت کے مظاہرے کا مقابلہ کیسے کرے گی — اور کیا یہ بحران کسی نئے سیاسی تصادم کی پیشگی علامت ہے؟