راستوں کی بندش، انٹرنیٹ سروس معطلی اور تجارتی سرگرمیوں کی بندش نے جڑواں شہروں کے شہریوں کو شدید مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے

راولپنڈی اور اسلام آباد میں مذہبی جماعت کے ممکنہ احتجاج کے باعث دوسرے روز بھی زندگی کے معمولات بری طرح متاثر ہیں۔ جڑواں شہروں کے درمیان آمد و رفت معطل ہے جبکہ اہم شاہراہوں کی بندش نے شہریوں، تاجروں اور طلبہ کے لیے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
انتظامیہ نے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسلام آباد ایکسپریس وے، فیض آباد انٹرچینج، اور آئی جی پی روڈ کو مکمل طور پر بند کر رکھا ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والا مرکزی مقام فیض آباد انٹرچینج مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے، جس کے باعث متبادل راستوں پر بھی شدید ٹریفک جام ہے۔ کھنہ پل، کری روڈ اور ڈھوک کالا خان کے راستے تاحال بند ہیں، جبکہ شہریوں کو طویل سفری مشکلات کا سامنا ہے۔
وارث خان، کمیٹی چوک، سکستھ روڈ، شمس آباد، ایران روڈ، راول روڈ، شاہین چوک اور صدر کے علاقوں میں بھی پولیس نے کنٹینرز لگا کر راستے سیل کر دیے ہیں۔ پرانے ایئرپورٹ کی طرف جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں اور ہیوی ٹریفک کے داخلے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق راولپنڈی انتظامیہ نے ممکنہ ہجوم اور کشیدگی کے خطرے کے پیش نظر شہر بھر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دیا ہے۔ پولیس اور ایف سی کے دستے مختلف داخلی و خارجی راستوں پر تعینات ہیں۔ فیض آباد کے اطراف میں بھاری نفری تعینات ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹا جا سکے۔
احتجاج کے خدشے کے پیش نظر جڑواں شہروں میں انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروس دوسرے روز بھی معطل ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ بند ہونے سے بینکنگ، آن لائن کاروبار اور رابطوں میں شدید رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں آن لائن کلاسز اور امتحانات بھی متاثر ہوئے ہیں۔
مزید برآں، فیض آباد اور اس کے اطراف میں واقع تمام ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کو انتظامیہ نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر سیل کر دیا ہے۔ کئی دکانداروں نے بھی احتجاجی مظاہرے کے خدشے کے پیش نظر اپنی دکانیں بند کر دی ہیں، جس سے تجارتی سرگرمیاں تقریباً مکمل طور پر رک گئی ہیں۔
میٹرو بس سروس، جو راولپنڈی سے اسلام آباد کے درمیان ہزاروں مسافروں کو روزانہ سہولت فراہم کرتی ہے، دوسرے روز بھی بند ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے کے باعث انہیں پیدل چل کر منزلوں تک پہنچنا پڑ رہا ہے۔ متعدد دفاتر میں حاضری معمول سے کم رہی جبکہ سرکاری دفاتر میں سروسز متاثر ہوئیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مذہبی جماعت کے رہنماؤں سے مذاکرات جاری ہیں تاکہ احتجاجی سرگرمیوں کو پُرامن طور پر ختم کیا جا سکے۔ تاہم انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی غیر قانونی اجتماع یا سڑکوں کی بندش کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
عوامی سطح پر احتجاج کے اثرات کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ جڑواں شہروں کی جغرافیائی حیثیت کے باعث کسی بھی قسم کی بندش پورے دارالحکومت کے نظامِ زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ شہری حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت فوری طور پر مذاکرات کے ذریعے حالات کو معمول پر لائے تاکہ تعلیمی ادارے، کاروبار اور آمد و رفت بحال ہو سکے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ فیض آباد انٹرچینج احتجاج کا مرکز بنا ہو۔ ماضی میں بھی 2017 میں مذہبی جماعت کے دھرنے نے کئی روز تک اسلام آباد اور راولپنڈی کے نظامِ زندگی کو مفلوج کر دیا تھا۔ اس وقت بھی حکومت کو دھرنا ختم کرانے کے لیے طویل مذاکرات اور آپریشن کا سہارا لینا پڑا تھا۔
فی الحال انتظامیہ نے شہریوں کو غیر ضروری سفر سے گریز اور متبادل راستوں کے استعمال کی ہدایت دی ہے۔ ٹریفک پولیس کی جانب سے شہریوں کو آگاہی کے لیے ہیلپ لائن اور سوشل میڈیا الرٹس جاری کیے جا رہے ہیں۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں جاری کشیدگی کے باعث معمولات زندگی مکمل طور پر مفلوج ہیں۔ اگر احتجاج طویل ہوا تو اس کے معاشی اور سماجی اثرات مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔ حکومت اور مذہبی قیادت کے درمیان مذاکرات کی کامیابی ہی صورتحال کو معمول پر لانے کا واحد راستہ قرار دی جا رہی ہے۔