اتوار , اکتوبر 12 2025

بجلی کمپنیوں پر 97 کروڑ 50 لاکھ روپے کے جرمانے، صرف 4 کروڑ 55 لاکھ وصول

نیپرا نے مہلک اور غیر مہلک حادثات پر 975 ملین روپے کے جرمانے عائد کیے، لیکن اب تک صرف 45.5 ملین روپے وصول کیے جا سکے ہیں

پاکستان کی توانائی کے شعبے میں کام کرنے والی بجلی کی ترسیل و تقسیم کی کمپنیوں، جن میں کے الیکٹرک اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (NTDC) شامل ہیں، کو نیپرا نے مہلک اور غیر مہلک حادثات کے باعث مجموعی طور پر 975 ملین روپے کے جرمانے کیے ہیں۔ لیکن اب تک صرف 45.5 ملین روپے قومی خزانے میں جمع کرائے جا سکے ہیں۔ باقی 95 فیصد سے زائد جرمانے عدالتوں میں چیلنج کیے جا چکے ہیں یا ان پر عمل درآمد کا عمل جاری ہے۔

نیپرا کی تازہ رپورٹ کے مطابق، صرف مہلک حادثات پر کے الیکٹرک اور دیگر ڈسٹریبیوشن کمپنیوں (DISCOs) پر 635 ملین روپے کے جرمانے عائد کیے گئے تھے۔ ان میں سے صرف 45.5 ملین روپے کی رقم وصول ہو سکی ہے، جبکہ 589.5 ملین روپے کے جرمانے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے اپیلٹ ٹربیونل (NAT) یا عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

غیر مہلک لیکن سنگین نوعیت کے حادثات کے حوالے سے، سابقہ واپڈا کی تقسیم کار کمپنیوں (XWDISCOs) پر 330 ملین روپے کے اضافی جرمانے لگائے گئے۔ تاہم، اس پوری رقم کی وصولی تاحال ممکن نہیں ہو سکی، کیونکہ یہ جرمانے یا تو کمپنیوں کی اپیل پر نظرِ ثانی کے عمل میں ہیں یا قانونی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔

اسی طرح نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (NTDC) پر 10 ملین روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا، جس کا نوٹیفکیشن 26 فروری 2025 کو جاری ہوا تھا۔ اس جرمانے کی وصولی کا عمل تاحال جاری ہے۔

ان تمام جرمانوں کی بنیاد بجلی کے شعبے میں حفاظتی اقدامات کی سنگین خلاف ورزیوں پر رکھی گئی ہے، جہاں لائن اسٹاف کو ناقص حفاظتی انتظامات، پرانی مشینری، اور ناکافی تربیت کے باعث روزانہ جان لیوا خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ زیادہ تر حادثات دورانِ مرمت یا ہنگامی صورتحال میں پیش آتے ہیں، جب لائنز کو مکمل طور پر بند کیے بغیر کام کیا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق، یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ضوابط کے نفاذ اور ان پر عمل درآمد کے درمیان نمایاں خلاء موجود ہے۔ جرمانے اگرچہ ادارہ جاتی سختی کا اشارہ دیتے ہیں، مگر ان کی کمزور وصولی یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاور کمپنیوں کو مؤثر انداز میں جوابدہ نہیں بنایا جا رہا۔

پاکستان کے توانائی شعبے میں ورکر سیفٹی ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے، جسے ہر سال کی رپورٹس میں نمایاں کیا جاتا رہا ہے۔ مزدور یونینز اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی بارہا اپیلوں کے باوجود، ادارہ جاتی اصلاحات ناکافی رہی ہیں، اور حادثات کا شکار ہونے والے ورکرز کے خاندان اکثر معاوضے کے حصول کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔

مزید یہ کہ پاور کمپنیاں قانونی پیچیدگیوں کو استعمال کر کے جرمانوں کو التواء میں ڈال دیتی ہیں، جبکہ متاثرہ خاندانوں کو انصاف کے حصول میں تاخیر یا پیچیدہ قانونی راستوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نیپرا اور دیگر ریگولیٹری ادارے پہلے ہی سے حفاظتی آڈٹ، لازمی حفاظتی سامان کے استعمال، اور تکنیکی سرٹیفکیشن جیسے اقدامات تجویز کر چکے ہیں، مگر ان پر عمل درآمد خاص طور پر دیہی یا کمزور علاقوں میں کمزور نظر آتا ہے۔

ردِ عمل کی بنیاد پر کیے جانے والے ضوابط، یعنی حادثے کے بعد ایکشن، آج بھی ریگولیٹری عمل پر غالب ہیں، جبکہ حادثات سے پہلے روک تھام کے اقدامات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

یہ صورتحال پاکستان کے توانائی شعبے کے لیے نہ صرف ساکھ کا خطرہ ہے بلکہ اصلاحاتی عمل، نجکاری اور گرڈ ماڈرنائزیشن جیسے منصوبوں کے لیے بھی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اور ترقیاتی شراکت دار بارہا کہہ چکے ہیں کہ مزدوروں کی حفاظت اور آپریشنل کمپلائنس کو فنڈنگ کا بنیادی تقاضا بنایا جائے۔

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر ان جرمانوں کا نفاذ حقیقی اصلاحات میں تبدیل نہ ہوا تو یہ محض نمائشی کارروائیاں بن کر رہ جائیں گے۔ 975 ملین روپے کے جرمانے محض ایک مالی تخمینہ نہیں، بلکہ یہ اس انسانی قیمت کی نشاندہی ہے جو ناقص حفاظتی اقدامات اور ٹوٹے ہوئے نظام کا نتیجہ ہے۔ جب تک پاور کمپنیاں ان بنیادی مسائل کو سنجیدگی سے حل نہیں کرتیں، جانوں کا ضیاع اور عوامی اعتماد کی کمی برقرار رہے گی۔

About Aftab Ahmed

Check Also

لاہور ٹیسٹ کے پہلے روز پاکستان کے 5 وکٹوں پر 313 رنز

شان مسعود، امام الحق کی نصف سنچریاں، رضوان اور سلمان علی آغا کی شراکت نے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے