اتوار , اکتوبر 12 2025

کے-الیکٹرک اور سی پی پی اے-جی کا 172.8 ارب کا تنازعہ

دو سال سے جاری ادائیگیوں اور سبسڈی کلیمز پر تنازعہ کے-الیکٹرک کی مالی پائیداری کے لیے خطرہ بن گیا

کے-الیکٹرک اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی گارنٹیڈ (سی پی پی اے-جی) کے درمیان 172.8 ارب روپے کے واجبات اور سبسڈی کے کلیمز پر پیدا ہونے والا تنازعہ دو سال گزرنے کے باوجود حل نہیں ہو سکا۔ معاملے کی سنگینی اور اس کے کے-الیکٹرک کی مالی استحکام پر اثرات کے پیش نظر، کمپنی نے پاور ڈویژن اور متعلقہ وزارتوں سے ایک بار پھر فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔

کے-الیکٹرک کے چیف فنانشل آفیسر عامر غازیانی نے جولائی 2025 کی ٹیرف ڈفرینشل سبسڈی (ٹی ڈی ایس) بیلنس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پاور ڈویژن کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ یہ رپورٹ 8 اگست کو وزارت توانائی کو کاؤنٹر سائن کے لیے ارسال کی گئی تھی۔ تاہم، اس کے جواب میں 18 اگست کو سی پی پی اے-جی نے ایک ترمیم شدہ بیلنس رپورٹ جاری کی جو کہ کے-الیکٹرک کے مطابق، ٹی ڈی ایس ایگریمنٹ کی شق 2.5 کی خلاف ورزی ہے۔

کے-الیکٹرک کا موقف ہے کہ ترمیم شدہ رپورٹ میں جن مالیاتی نکات کو شامل کیا گیا ہے، وہ نہ صرف غیر متفقہ ہیں بلکہ ان کا حل باقاعدہ تنازعہ حل کرنے کے طے شدہ طریقہ کار کے تحت کیا جانا چاہیے، جیسا کہ ٹی ڈی ایس اے کی شق 2.7 میں واضح طور پر درج ہے۔ مزید برآں، کمپنی نے اس امر کی بھی نشاندہی کی کہ 31 دسمبر 2023 کے بعد سبسڈی کی تمام ادائیگیاں براہ راست کے-الیکٹرک کے ماسٹر کلیکشن اکاؤنٹ میں منتقل ہونا لازمی تھیں، جیسا کہ معاہدے میں درج ہے۔ لیکن سی پی پی اے-جی کو جاری کیے گئے حالیہ فنڈز اس اصول کے برخلاف ہیں۔

کے-الیکٹرک نے سی پی پی اے-جی کی ترمیم شدہ رپورٹ میں شامل “منفی کلیمز پر مارک اپ” کو بھی چیلنج کیا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ ٹی ڈی ایس اے کے تحت منفی کلیمز پر کسی قسم کا مارک اپ لاگو نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس، کے-الیکٹرک کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ نیپرا کی جانب سے ٹیرف ڈیٹرمنیشن میں تاخیر کی صورت میں، کمپنی کو مارک اپ کا دعویٰ کرنے کا حق حاصل ہے، جیسا کہ نیپرا ایکٹ کی شق 2.9 میں درج ہے۔

عامر غازیانی نے اپنے خط میں مزید کہا کہ “ہم حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دستخط شدہ معاہدوں پر شفاف اور ہموار عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔” ان کے مطابق یہ عمل نہ صرف کے-الیکٹرک کی مالی بقاء کے لیے ضروری ہے بلکہ حکومتی مالیاتی بوجھ کو کم کرنے میں بھی معاون ہو سکتا ہے۔

کے-الیکٹرک نے یہ بھی واضح کیا کہ اس نے پاور پرچیز ایجنسی ایگریمنٹ (پی پی اے اے) کے تحت جنوری 2024 سے اب تک سی پی پی اے-جی کو 354.4 ارب روپے کی مکمل اور بروقت ادائیگیاں کی ہیں۔ کمپنی کے مطابق، اس مدت کے دوران سی پی پی اے-جی کو اس سے کوئی واجبات باقی نہیں۔

یہ تنازعہ ایسے وقت میں شدت اختیار کر گیا ہے جب پاکستان میں بجلی کے شعبے کو لیکویڈیٹی بحران، سبسڈی ریفارمز، اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دباؤ جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اگر اس معاملے کو فوری اور شفاف طریقے سے حل نہ کیا گیا تو یہ نہ صرف کے-الیکٹرک کی مالی صحت بلکہ بجلی کی ترسیل کے استحکام پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ سکتا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کے-الیکٹرک ملک کی واحد نجی بجلی تقسیم کار کمپنی ہے، جو کراچی سمیت بڑے شہری علاقوں کو بجلی فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ طے شدہ ادائیگیوں کی عدم وصولی اس کی آپریشنل کارکردگی اور صارفین کو مسلسل بجلی کی فراہمی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ وزارت توانائی، سی پی پی اے-جی اور نیپرا اس پیچیدہ تنازعے کو حل کرنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں، اور آیا حکومت کے-الیکٹرک کے خدشات کو سنجیدگی سے لیتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ اگر 172.8 ارب روپے کے اس واجباتی اختلاف کا کوئی مؤثر حل نہ نکالا گیا تو یہ پاکستان کے بجلی کے شعبے میں ایک نئے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔

#KElectric #CPPA_G #PowerSector #PakistanEconomy #Karachi #EnergyCrisis #FinancialDispute

About Aftab Ahmed

Check Also

لاہور ٹیسٹ کے پہلے روز پاکستان کے 5 وکٹوں پر 313 رنز

شان مسعود، امام الحق کی نصف سنچریاں، رضوان اور سلمان علی آغا کی شراکت نے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے