سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں مزید بارشوں کی پیش گوئی

بھارت کی جانب سے چھوڑا گیا سیلابی ریلا ہیڈ پنجند پہنچ گیا ہے اور اگلے دو روز میں گڈو بیراج تک پہنچنے کا امکان ہے۔
محکمہ اطلاعات سندھ کے مطابق گڈو بیراج پر پانی کی آمد 3 لاکھ 42 ہزار 153 کیوسک اور اخراج 3 لاکھ 10 ہزار 408 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سکھر بیراج پر آمد 3 لاکھ 31 ہزار 230 کیوسک جبکہ اخراج 2 لاکھ 75 ہزار 850 کیوسک رہا۔ اسی طرح کوٹری بیراج پر پانی کی آمد 2 لاکھ 47 ہزار 186 کیوسک اور اخراج 2 لاکھ 9 ہزار 431 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ ہیڈ پنجند میں پانی کی آمد 2 لاکھ 27 ہزار 710 کیوسک اور اخراج 2 لاکھ 13 ہزار 740 کیوسک رہا۔
سیلابی صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے صوبائی حکومت نے انتظامات تیز کر دیے ہیں۔ سندھ کے وزیر زراعت محمد بخش مہر نے گڈو بیراج اور کندکھوٹ کشمور بند کا دورہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال خطرناک نہیں اور اندازوں کے مطابق 7 لاکھ کیوسک کا ریلا آ سکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاملہ طویل عرصے سے حساس نوعیت رکھتا ہے۔ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے دریا تقسیم کیے گئے تھے تاہم بارہا ایسے مواقع سامنے آئے ہیں جب بھارت کی جانب سے دریاؤں میں چھوڑا گیا پانی پاکستان میں اچانک سیلابی صورتحال پیدا کر دیتا ہے۔ ماضی میں بھی 2010 اور 2014 کے سیلابوں کے دوران بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنے پر پاکستان کے کئی علاقے متاثر ہوئے تھے۔

گڈو، سکھر اور کوٹری بیراج سندھ کے اہم حفاظتی ڈھانچے ہیں جو پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرتے اور سیلابی ریلوں سے نشیبی علاقوں کو بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان بیراجوں کی موجودہ صورتحال پر مسلسل نگرانی جاری ہے اور ضلعی انتظامیہ کو ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے الرٹ کر دیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر 7 لاکھ کیوسک کا ریلا متوقع طور پر سندھ کے بیراجوں تک پہنچتا ہے تو نشیبی علاقے زیرِ آب آ سکتے ہیں، تاہم حکام کا دعویٰ ہے کہ اس وقت تک صورت حال قابو میں ہے اور خطرے کی سطح نہیں پہنچی۔ ماضی میں ایسے ریلوں کے نتیجے میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین متاثر ہوئی اور ہزاروں خاندانوں کو نقل مکانی کرنا پڑی تھی۔
سیلابی پانی کی روانی کا اثر اگلے چند دنوں میں مزید واضح ہوگا، تاہم ابتدائی اعداد و شمار اور حکومتی یقین دہانی کے مطابق فی الحال خطرے کی صورتحال نہیں ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں اور انتظامیہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
بھارتی سیلابی ریلے کے اثرات کا انحصار آئندہ دنوں میں دریاؤں کے بہاؤ اور بارشوں کی شدت پر ہوگا، تاہم ماہرین نے نشیبی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو احتیاط برتنے اور حکومتی ہدایات پر عمل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
مزید بارشوں کی پیش گوئی
محکمہ موسمیات نے اتوار سے بدھ تک سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے مختلف شہروں میں وقفے وقفے سے تیز بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بارشوں کا نیا سلسلہ صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔ ان علاقوں میں پہلے ہی سیلابی پانی کی نکاسی نہ ہونے کے باعث مشکلات درپیش ہیں اور مزید بارش سے متاثرین کی مشکلات بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

کراچی میں بھی کل سے نو ستمبر تک بارش کا امکان ہے جس کے پیش نظر شہری انتظامیہ کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ مون سون کے اس مرحلے میں نمی کا دباؤ بڑھنے کے باعث بارشوں کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
پاکستان میں بارشوں کے نتیجے میں سیلابی صورتحال کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ 2010 اور 2022 کے شدید سیلابوں کے بعد سے ہر برس بارشوں کے دوران نشیبی علاقوں اور زرعی زمینوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت کی جانب سے دریاؤں میں چھوڑا گیا سیلابی ریلا بھی گڈو، سکھر اور کوٹری بیراج تک پہنچ چکا ہے، جس سے سندھ میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔
محکمہ موسمیات اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے متعلقہ ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ پیشگی اقدامات کریں تاکہ بارش اور ممکنہ سیلابی ریلوں کے نقصانات کم سے کم ہوں۔ ماضی میں تاخیر اور انتظامی غفلت کے باعث بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا تھا، اس بار حکام کا دعویٰ ہے کہ فوری امدادی کارروائیوں کے لیے ٹیمیں تیار ہیں۔
ماہرین نے شہریوں، خاص طور پر نشیبی علاقوں میں رہنے والوں کو احتیاطی تدابیر اپنانے، بجلی کے کھمبوں اور کھلی نالیوں سے دور رہنے اور بارش کے دوران غیر ضروری سفر سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ بارشوں کا موجودہ سلسلہ بدھ تک جاری رہنے کا امکان ہے، جس کے بعد صورتحال میں بہتری متوقع ہے۔ تاہم اگلے چند دن پنجاب اور سندھ کے متاثرہ علاقوں کے لیے نہایت اہم قرار دیے جا رہے ہیں۔
سیلاب اور بارشوں کے اثرات پر صوبائی اور وفاقی اداروں کی کارکردگی ایک بار پھر آزمائش میں ہے، اور متاثرین کو اب بھی اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے لیے عملی ریلیف اقدامات کب تک یقینی بنائے جائیں گے۔