جمعرات , نومبر 13 2025

قومی اسمبلی سے 27ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور

قومی اسمبلی نے 27ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی، ترمیم کے حق میں 234 جبکہ مخالفت میں صرف چار ووٹ پڑے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری شریک ہوئے۔

ترمیمی بل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا، جس میں چیف جسٹس کے عہدے سے متعلق ابہام دور کرتے ہوئے آئینی عدالت کے قیام کو یقینی بنایا گیا۔ ترمیم کے تحت جسٹس یحییٰ آفریدی بطور چیف جسٹس برقرار رہیں گے۔ ایوان میں بل کی منظوری کے موقع پر حکومتی ارکان نے میزیں بجاکر خوشی کا اظہار کیا۔

منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے ایوان سے خطاب میں کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم قومی یکجہتی اور جمہوری استحکام کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایوان نے آج اتحاد کا مظاہرہ کیا، تمام اراکین کا مشکور ہوں۔‘‘ وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں بیرونی ہاتھ ملوث ہیں، خاص طور پر واناکیڈٹ کالج اور اسلام آباد کچہری کے حملے افسوسناک ہیں۔ ان کے مطابق ان حملوں میں افغان باشندے بھی شامل تھے۔

شہباز شریف نے مزید کہا کہ ’’پاکستان نے گزشتہ چار دہائیوں تک افغان عوام کی میزبانی کی، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ افغان حکومت اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کو روکے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہماری مسلح افواج نے قوم کی حفاظت کے لیے عظیم قربانیاں دی ہیں، ان پر فخر ہے۔‘‘ وزیراعظم نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا ٹائٹل دینے کے فیصلے کو ’’قوم کی جانب سے اپنے ہیروز کو عزت دینے کا مظہر‘‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت کا قیام 19 سال پرانے وعدے کی تکمیل ہے، جس کا ذکر میثاقِ جمہوریت میں بھی شامل تھا۔ شہباز شریف نے آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، خالد مگسی، خالد مقبول صدیقی، ایمل ولی خان اور فاروق ستار کا تعاون پر شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اختلاف جمہوریت کا حسن ہے، لیکن ہمیں دشنام طرازی کے بجائے قومی مفاد میں متحد ہونا ہوگا۔‘‘

قبل ازیں، بلاول بھٹو زرداری نے خطاب میں کہا کہ ’’آج ہم میثاقِ جمہوریت کے نامکمل وعدوں کو پورا کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’کسی کا باپ بھی 18ویں ترمیم کو ختم نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ صوبائی خودمختاری کی ضمانت ہے۔‘‘ بلاول بھٹو نے کہا کہ ’’27ویں آئینی ترمیم اتفاقِ رائے سے منظور ہونی چاہیے، جیسے 18ویں اور 26ویں ترامیم ہوئیں۔‘‘

پیپلز پارٹی چیئرمین نے کہا کہ ’’ہم حکومت کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہماری تجاویز قبول کیں۔‘‘ ان کے مطابق ’’اس ترمیم کے بعد کوئی بھی جج ازخود نوٹس نہیں لے سکے گا، جو عدالتی توازن کے لیے اہم قدم ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت میں تمام صوبوں کی برابری کی بنیاد پر نمائندگی ہوگی۔

بلاول بھٹو نے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’قوم ایک بار پھر دہشت گردوں کے خلاف متحد ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے ماضی میں قربانیاں دے کر دہشت گردوں کو شکست دی اور آئندہ بھی دیں گے۔‘‘

اجلاس کے دوران اپوزیشن ارکان نے شدید نعرے بازی کی، ’’چور آیا چور آیا‘‘ کے نعرے لگائے گئے، تاہم اسپیکر نے کارروائی جاری رکھی۔ اپوزیشن جماعتوں نے بعد ازاں ایوان کی کارروائی کا مکمل بائیکاٹ کردیا۔

27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام میں توازن پیدا کرنے اور آئینی عدالت کے قیام کو ممکن بنایا گیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ ترمیم ملکی جمہوری ڈھانچے میں ایک اہم سنگ میل ہے جو ادارہ جاتی ہم آہنگی کو فروغ دے گی۔

اقتصادی ماہرین کے نزدیک آئینی استحکام سرمایہ کاروں کے اعتماد میں بہتری لا سکتا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (PILDAT) کے مطابق، گزشتہ پانچ سالوں میں پارلیمان کی قانون سازی کی رفتار میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو سیاسی اتفاقِ رائے کی بحالی کی علامت ہے۔

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد 27ویں آئینی ترمیم اب سینیٹ میں پیش کی جائے گی۔ اگر سینیٹ بھی دو تہائی اکثریت سے اسے منظور کرلے تو آئینی عدالت کے قیام کا باقاعدہ آغاز ہوگا، جسے وزیراعظم شہباز شریف نے ’’پارلیمانی جمہوریت کی نئی بنیاد‘‘ قرار دیا۔

About Aftab Ahmed

Check Also

آئی سی سی نے نئی رینکنگ جاری کر دی، پاکستانی کھلاڑیوں کی درجہ بندی میں تبدیلی

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے مینز ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے پلیئرز کی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے