
قومی اسمبلی آج 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے سکتی ہے، جس کے بعد وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے لیے عملی اقدامات شروع ہونے کا امکان ہے۔
قومی اسمبلی میں آج 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری متوقع ہے، جس سے حکومت کو وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا راستہ کھل جائے گا۔ ترمیم پر ایوان میں گزشتہ روز سے بحث جاری ہے اور حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کے دستخط کے بعد اس عدالت کے قیام کے لیے عملی اقدامات فوری طور پر شروع کیے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق سینیٹ کے قواعد کے تحت ایوانِ بالا کے اجلاس کا وقت بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔ نیا اجلاس اب 12 نومبر 2025 کو شام 5 بجے منعقد ہوگا، جب کہ پہلے یہ اجلاس 13 نومبر کو شام 4 بجے بلایا گیا تھا۔ اس تبدیلی کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
ترمیم کے تحت ایک مستقل وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court) قائم کی جائے گی جس میں چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت سے جج شامل ہوں گے۔ اس عدالت کا دائرہ اختیار وفاق اور صوبوں کے درمیان آئینی تنازعات کے فیصلے تک محدود ہوگا، جبکہ ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کی گئی ہے، جو سپریم کورٹ کے ججوں کی عمر (65 سال) سے زیادہ ہے۔
الجزیرہ کے مطابق، اس ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس (suo motu) کے اختیارات بھی اس نئی عدالت کو منتقل کیے جائیں گے۔
ترمیم میں عدالتی تقرریوں اور ججوں کے تبادلوں کے طریقہ کار میں بھی تبدیلیاں شامل ہیں۔ نئے طریقہ کار کے تحت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلوں کی سفارش کا اختیار دیا جائے گا، جبکہ صدرِ مملکت اور چیف جسٹس انہی سفارشات کی بنیاد پر فیصلے کریں گے۔

اے پی پی کے مطابق، قانون و انصاف کی وزارت کا کہنا ہے کہ ان اصلاحات کا مقصد عدالتی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور آئینی مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کم کرنا ہے۔
تاہم اپوزیشن جماعتوں اور قانونی ماہرین نے ترمیم پر تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے عدلیہ کی خودمختاری متاثر ہو سکتی ہے اور اختیارات کا توازن مرکز کی جانب جھک جائے گا۔
ڈان کے مطابق، اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ ترمیم صوبائی خودمختاری کے اصولوں کے خلاف ہے۔
اگر آج قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد صدر مملکت اس پر دستخط کر دیتے ہیں تو وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے لیے فوری اقدامات شروع ہو جائیں گے۔ حکومت نے اس سلسلے میں سینیٹ کا شیڈول بھی ایڈجسٹ کر لیا ہے تاکہ آئینی تقاضے بروقت مکمل کیے جا سکیں۔
27ویں آئینی ترمیم کے نفاذ سے پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی متوقع ہے جو وفاق، صوبوں اور عدلیہ کے درمیان اختیارات کے توازن کو ازسرنو متعین کرے گی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اصلاحات نظام انصاف میں بہتری لائیں گی، جبکہ ناقدین کے مطابق یہ عدالتی خودمختاری کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہیں۔
UrduLead UrduLead