
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27ویں آئینی ترمیم کا بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کردیا، جسے حکومت ایک روز قبل سینیٹ سے کامیابی کے ساتھ منظور کرواچکی ہے، جبکہ آج قومی اسمبلی سے بھی اس اہم آئینی ترمیم کی منظوری کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی صدارت میں ہوا، جس کا آغاز مسلم لیگ (ن) کے مرحوم سینیٹر عرفان صدیقی کے لیے دعائے مغفرت سے کیا گیا۔
وزیر قانون کا خطاب
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترامیم ہمیشہ اتفاقِ رائے سے کی جاتی ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 26ویں ترمیم کے موقع پر مولانا فضل الرحمان کی تجویز پر آئینی بینچ پر اتفاق ہوا تھا، جس کے بعد ترمیم منظور کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں کا زیادہ وقت آئینی مقدمات میں صرف ہوتا تھا، جبکہ آئینی بینچ کے قیام سے دیگر مقدمات جلد نمٹانے میں مدد ملے گی۔
وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز
اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ وفاق نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، جس میں تمام صوبوں اور وفاق کو نمائندگی حاصل ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ اس ترمیم کے ذریعے عدالت کے ازخود نوٹس کے اختیار پر بھی نظرثانی کی گئی ہے تاکہ اس کے استعمال میں توازن قائم کیا جا سکے۔
وزیر قانون نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو بھی اس اہم قانون سازی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا، لیکن انہوں نے اس معاملے کو خاطر میں نہیں لایا۔
فوجی قیادت سے متعلق دفعات
اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ “معرکۂ حق” میں پاکستان نے تاریخی کامیابی حاصل کی، جس کی عالمی سطح پر پذیرائی ہوئی۔ حکومت نے مشاورت کے بعد قوم کے بہادر سپوت کو فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نوازا، لہٰذا ضروری سمجھا گیا کہ فیلڈ مارشل کے عہدے کو قانونی دائرہ کار میں لایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کی تعیناتی آئین اور آرمی ایکٹ کے تحت وزیر اعظم کی سفارش پر صدرِ مملکت کرتے ہیں۔ ترمیم کے تحت صدرِ مملکت کے کچھ آئینی استثنیٰ تاحیات برقرار رہیں گے۔
منظوری کے امکانات
آئینی ماہرین کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے، جو موجودہ حکومتی اتحاد کے پاس حاصل ہے۔
حکومتی اتحاد میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، مسلم لیگ (ق)، استحکام پاکستان پارٹی، مسلم لیگ (ضیا)، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پیپلز پارٹی شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے گزشتہ روز سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ بل پاس کرایا، جس میں اپوزیشن کے دو سینیٹرز نے غیر متوقع طور پر حمایت کی۔
یہ آئینی ترمیم بنیادی طور پر عدلیہ اور فوجی قیادت سے متعلق شقوں میں تبدیلیاں متعارف کرواتی ہے، جن کا مقصد آئینی دائرے میں توازن، شفافیت اور ادارہ جاتی ہم آہنگی پیدا کرنا ہے
UrduLead UrduLead