اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج پر غیر قانونی داخلے اور امتحانی طریقوں کے الزامات

جامعہ کراچی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری باقاعدہ طور پر منسوخ کر دی ہے، جس کی بنیاد غیر منصفانہ ذرائع کے استعمال اور داخلہ میں بے ضابطگیوں پر رکھی گئی ہے۔
یونیورسٹی کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ 31 اگست 2024 کو سنڈیکیٹ کے اجلاس میں قرارداد نمبر 06 کی منظوری دی گئی، جس کے تحت غیر منصفانہ ذرائع کمیٹی (UFM) کی سفارشات کو قبول کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم کو امتحانی بدعنوانی کا مرتکب پایا گیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت ان کی ایل ایل بی کی ڈگری، نشست نمبر 22857 اور انرولمنٹ نمبر AIL-7124/87 کو منسوخ کر دیا گیا ہے، اور انہیں آئندہ تین سال تک کسی بھی پاکستانی یونیورسٹی یا کالج میں داخلہ لینے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں مزید واضح کیا گیا کہ مذکورہ شخص 1989ء میں اسلامیہ لاء کالج کراچی کے طالب علم تھے ہی نہیں، جبکہ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ رجسٹرار سیٹلمنٹ نے ان کا انرولمنٹ نمبر بھی ختم کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن وائس چانسلر کی منظوری سے جاری کیا گیا، جو کہ انتظامی سطح پر اس فیصلے کو حتمی شکل دینے کا قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔
جسٹس طارق جہانگیری اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج ہیں، اور ان کے خلاف اس نوعیت کی کارروائی نہ صرف غیر معمولی ہے بلکہ ملکی عدالتی تاریخ میں ایک نادر مثال بھی۔ اس فیصلے پر قانونی برادری میں شدید ردعمل دیکھنے کو ملا ہے۔ اسلام آباد بار کونسل نے اس فیصلے کو ’’تاریخ کا سیاہ ترین دن‘‘ قرار دیا اور مؤقف اپنایا کہ ایک موجودہ جج کو یوں عوامی سطح پر بدنام کرنا نہ صرف عدلیہ کی توہین ہے بلکہ اس سے عدالتی وقار بھی مجروح ہوتا ہے۔
دوسری جانب، سندھ ہائی کورٹ نے اس معاملے پر دائر کردہ ایک درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاران نے سماعت کے دوران عدالت کے ساتھ مکمل تعاون نہیں کیا اور دوران سماعت عدالت کو چھوڑ کر چلے گئے، جس سے ان کی عدم دلچسپی اور قانونی طریقہ کار سے انحراف ظاہر ہوتا ہے۔
یہ معاملہ پاکستان کے عدالتی نظام میں انصاف، شفافیت اور احتساب کے اصولوں کے درمیان ایک نازک توازن کو نمایاں کرتا ہے۔ اگر ایک اعلیٰ عدلیہ کا جج تعلیمی اسناد میں بے ضابطگی کا مرتکب پایا جاتا ہے، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ ملک میں عدالتی بھرتی کا نظام کتنا مؤثر ہے اور کس حد تک پس منظر کی چھان بین کی جاتی ہے۔
تاریخی طور پر، پاکستان میں اعلیٰ عدالتی عہدوں پر تعیناتی سے قبل جوڈیشل کمیشن، بار کونسلز، اور سکیورٹی ادارے تعلیمی اسناد کی تصدیق سمیت مکمل جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ لیکن جسٹس طارق جہانگیری کے کیس نے اس عمل میں موجود ممکنہ خلاؤں کو اجاگر کر دیا ہے۔
مستقبل میں اس کیس کے قانونی اثرات دور رس ہوں گے۔ اگر یہ الزامات ثابت ہوتے ہیں تو نہ صرف ان کی موجودہ تعیناتی خطرے میں پڑ سکتی ہے بلکہ ماضی میں دیے گئے فیصلوں پر بھی سوال اٹھ سکتا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل اس معاملے میں کردار ادا کر سکتی ہے، اور ممکنہ طور پر ان کی برطرفی یا جبری ریٹائرمنٹ کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
اسٹس طارق جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری کی منسوخی نہ صرف تعلیمی بے ضابطگیوں پر سوالیہ نشان ہے بلکہ یہ پاکستان کے عدالتی نظام میں شفافیت کے مطالبے کو بھی نئی تقویت دے رہا ہے۔ اس فیصلے سے قبل پاکستان میں اس نوعیت کا کوئی بڑا عدالتی اسکینڈل شاذ و نادر ہی منظر عام پر آیا، جس سے یہ کیس قانونی اور اخلاقی حلقوں میں طویل عرصے تک زیربحث رہے گا۔