پیر , اکتوبر 13 2025

جولائی میں پاور سیکٹر کا گردشی قرض 47 ارب روپے بڑھ گیا

وفاقی منظوری کے باوجود سرکلر ڈیٹ میں اضافہ، جون کے مقابلے میں جولائی 2025 میں قرضہ 1661 ارب روپے تک پہنچ گیا

وفاقی حکومت کی جانب سے جون 2025 میں پاور سیکٹر کے گردشی قرضے کے خاتمے کی منظوری کے باوجود جولائی میں اس قرضے میں 47 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے، جس نے حکومت کی مالیاتی اصلاحات پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، پاور ڈویژن کی اندرونی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ جون کے آخر تک یہ قرضہ 1614 ارب روپے تھا جو کہ جولائی میں بڑھ کر 1661 ارب روپے ہو گیا۔

دستاویزات سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ اگرچہ جولائی 2025 میں سرکلر ڈیٹ گزشتہ ماہ کے مقابلے میں بڑھا، تاہم جولائی 2024 کے مقابلے میں اس میں 737 ارب روپے کی مجموعی کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک سال پہلے، جولائی 2024 میں گردشی قرضہ 2351 ارب روپے تھا، جو اب کم ہو کر 1661 ارب روپے رہ گیا ہے۔ تاہم، ماہانہ سطح پر ہونے والا یہ اضافہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ بجلی کے شعبے میں بنیادی اصلاحات کے باوجود نظامی خامیاں تاحال موجود ہیں۔

18 جون کو وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاور سیکٹر کے گردشی قرضے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کمرشل بینکوں سے 1275 ارب روپے قرض لیا جائے گا۔ اس منظوری کو ایک اہم مالیاتی اقدام قرار دیا گیا تھا، جس کا مقصد بجلی کے شعبے میں مالیاتی رکاوٹوں کو ختم کرنا اور توانائی کی ترسیل کو بہتر بنانا تھا۔

پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستانی معیشت کے لیے ایک مستقل چیلنج رہا ہے۔ یہ قرض بنیادی طور پر ان واجبات پر مشتمل ہوتا ہے جو حکومت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں (IPPs)، تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) اور تیل و گیس فراہم کرنے والوں کو ادا نہیں کر پاتی۔ جب یہ واجبات طویل عرصے تک زیر التوا رہتے ہیں تو وہ گردشی قرض کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔

معاشی ماہرین کے مطابق گردشی قرضے میں ماہانہ اضافہ پاور سیکٹر میں موجود عدم توازن اور مالی نظم و ضبط کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگر حکومت نے بجلی کی قیمتوں، ٹیکسوں اور نقصانات پر قابو نہ پایا تو قرض کا یہ بوجھ دوبارہ بڑھتا رہے گا، خواہ وقتی طور پر اسے کم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔

پاور ڈویژن کی رپورٹ کے مطابق گردشی قرض میں حالیہ اضافے کی وجوہات میں بجلی کی ترسیل میں ہونے والے نقصانات (line losses)، بلوں کی عدم ادائیگی، اور سبسڈی کی مکمل منتقلی نہ ہونا شامل ہے۔ مزید برآں، صارفین سے بجلی کے واجبات کی مکمل وصولی میں مسلسل ناکامی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

توانائی کے ماہرین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ نہ صرف مالیاتی انتظام کو بہتر بنائے بلکہ پاور سیکٹر کی ساختی اصلاحات کو بھی ترجیح دے۔ ان میں بجلی کی قیمتوں کا شفاف تعین، ترسیلی نقصانات کو کم کرنا، اور سبسڈی کے نظام کو بہتر بنانا شامل ہے۔

ماضی میں بھی حکومتیں سرکلر ڈیٹ کے خاتمے کے لیے مختلف مالیاتی اقدامات کرتی رہی ہیں، جیسا کہ 2013 میں نواز شریف حکومت نے 480 ارب روپے کا فوری ادائیگی پیکج دیا تھا، جس سے وقتی ریلیف تو ملا لیکن نظامی اصلاحات نہ ہونے کے باعث قرض دوبارہ جمع ہونا شروع ہو گیا۔

اس تناظر میں جولائی 2025 میں گردشی قرضے میں ہونے والا اضافہ اس خدشے کو تقویت دیتا ہے کہ اگر مالیاتی و انتظامی بہتری کے ساتھ ساتھ طویل المدتی حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو پاور سیکٹر ایک بار پھر مالی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ حکومت کے لیے اب ناگزیر ہو چکا ہے کہ وہ صرف وقتی ریلیف کی بجائے پائیدار حل تلاش کرے تاکہ پاکستان کی توانائی معیشت ایک مستقل بنیاد پر مستحکم ہو سکے۔

#CircularDebt #PowerSector #PakistanEconomy #ElectricityCrisis #Pakistan

About Aftab Ahmed

Check Also

لاہور ٹیسٹ کے پہلے روز پاکستان کے 5 وکٹوں پر 313 رنز

شان مسعود، امام الحق کی نصف سنچریاں، رضوان اور سلمان علی آغا کی شراکت نے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے