منگل , اکتوبر 14 2025

دریائے چناب اور ستلج میں اونچے درجے کا سیلاب، متعدد علاقے زیرِ آب

مون سون بارشوں کے دسویں اسپیل کی پیش گوئی، سیلابی خدشات بڑھ گئے

پاکستان کے دریاؤں میں حالیہ بارشوں اور پانی کے غیر معمولی بہاؤ کے باعث سیلابی صورتحال شدید تر ہوگئی ہے۔ دریائے چناب میں اونچے درجے کا سیلاب گزر رہا ہے اور دو آبہ فلڈ بند سمیت شیر شاہ فلڈ بند کو محفوظ رکھنے کے لیے انتظامیہ بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ متاثرہ اضلاع میں شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے اور نقصانات کم کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات جاری ہیں۔

فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق دریائے ستلج میں بھی اونچے درجے کا سیلاب برقرار ہے۔ ہیڈ گنڈا سنگھ والا پر پانی کا بہاؤ 3 لاکھ 53 ہزار 825 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ ہیڈ سلیمانکی پر پانی کی آمد و اخراج ایک لاکھ 32 ہزار 916 کیوسک رہا۔ بورےوالا کے جملیرا مقام پر پانی کا بہاؤ ایک لاکھ 60 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ہیڈ اسلام پر پانی کی آمد اور اخراج ایک لاکھ 3 ہزار 465 کیوسک جبکہ میلسی ہیڈ سائفن پر بہاؤ 93 ہزار 343 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ فلڈ فورکاسٹنگ لاہور کے مطابق دریائے راوی میں بھی خطرناک صورتحال ہے۔ ہیڈ بلوکی پر بہاؤ بڑھ کر 1 لاکھ 57 ہزار کیوسک ہو گیا جبکہ ہیڈ سدھنائی پر پانی میں کمی واقع ہوئی ہے اور بہاؤ گھٹ کر 1 لاکھ 1 ہزار کیوسک رہ گیا ہے۔

سیلاب نے جنوبی پنجاب کے کئی علاقوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ مظفرگڑھ اور ڈیرہ غازی خان کی قومی شاہراہ کا ایک ٹریک زیرِ آب آ گیا جبکہ ہیڈ محمد والا کی نواحی بستیوں میں پانی جمع ہو گیا ہے۔ مظفر گڑھ، جھنگ اور خانیوال کے متعدد دیہات پانی میں ڈوب چکے ہیں، جس سے ہزاروں مکین بے گھر ہو گئے ہیں۔

لیاقت پور میں دریائے چناب کے متاثرین کے لیے نور والا میں قائم فلڈ ریلیف کیمپ میں سہولتوں کی کمی پر شہری پریشان ہیں۔ متاثرین کے مطابق جانوروں کے چارے، ادویات اور خیمہ جات کی بروقت فراہمی نہ ہونے کے باعث مشکلات بڑھ گئی ہیں۔

دوسری جانب دریائے سندھ کے بیراجوں پر بھی پانی کی آمد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گڈو بیراج پر پانی کی آمد 3 لاکھ 60 ہزار 976 کیوسک، سکھر بیراج پر 3 لاکھ 29 ہزار 648 کیوسک جبکہ کوٹری بیراج پر 2 لاکھ 37 ہزار 922 کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر پانی کے بہاؤ میں مزید اضافہ ہوا تو نشیبی علاقوں میں بڑے پیمانے پر انخلا کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز (PDMA) نے ضلعی انتظامیہ کو ہائی الرٹ جاری کر دیا ہے اور ریلیف آپریشنز میں تیزی لانے کی ہدایت دی گئی ہے۔

تاریخی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے ماضی میں بھی کئی بار شدید سیلابی صورتحال کا سامنا کیا ہے، جن میں 2010 کا سیلاب سب سے تباہ کن تھا، جس نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا تھا۔ موجودہ صورتحال نے ایک بار پھر متعلقہ اداروں کے لیے بڑا امتحان کھڑا کر دیا ہے، جبکہ متاثرہ آبادی فوری امداد اور بحالی کی منتظر ہے۔

مون سون بارشوں کا دسواں اسپیل

ملک بھر میں مون سون بارشوں کے دسویں اسپیل کا آغاز آج سے ہو رہا ہے، جس کے باعث اسلام آباد، پنجاب اور سندھ کے کئی اضلاع میں شہری اور دیہی سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے خبردار کیا ہے کہ بارشوں کے نئے سلسلے سے پہلے ہی متاثرہ علاقوں میں مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

محکمہ موسمیات کے مطابق اسلام آباد اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں 7 سے 9 ستمبر تک بارشیں متوقع ہیں۔ ان اضلاع میں مری، اسلام آباد، راولپنڈی، جہلم، چکوال، اٹک، منڈی بہاؤالدین، گجرات، گوجرانوالہ، حافظ آباد، چنیوٹ، لاہور، سیالکوٹ، نارووال، شیخوپورہ، فیصل آباد اور سرگودھا شامل ہیں۔ این ڈی ایم اے نے ان علاقوں میں شہری سیلاب اور ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ پنجاب کے کئی اضلاع پہلے ہی دریاؤں اور برساتی نالوں میں آنے والے سیلاب سے متاثر ہیں، اور مزید بارشوں کی صورت میں پانی کی سطح بڑھنے سے صورت حال سنگین ہو سکتی ہے۔ انتظامیہ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پیشگی اقدامات کریں اور متاثرہ شہریوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی یقینی بنائیں۔

دوسری جانب کراچی کے لیے بھی اتوار سے منگل تک گرج چمک کے ساتھ تیز بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ محکمہ موسمیات نے اربن فلڈنگ کا خدشہ ظاہر کیا ہے جس سے شہر کی نشیبی بستیاں اور مرکزی شاہراہیں زیرِ آب آ سکتی ہیں۔ شہریوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور بجلی کی تنصیبات یا کھلے تاروں کے قریب جانے سے احتیاط برتیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشوں کے پیٹرن مزید غیر متوقع ہو گئے ہیں۔ پاکستان گزشتہ ایک دہائی کے دوران کئی بار شدید بارشوں اور تباہ کن سیلابوں کا سامنا کر چکا ہے، جن میں 2010 اور 2022 کے سیلاب سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے۔ حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر شہری اور دیہی ڈھانچے کی کمزوریوں کو نمایاں کیا ہے۔

این ڈی ایم اے نے تمام ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو اداروں کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بروقت امدادی کارروائیاں کی جا سکیں۔ عوام سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ حفاظتی اقدامات پر عمل کریں اور بارشوں کے دوران نشیبی یا خطرناک علاقوں میں نہ جائیں۔

یہ نیا اسپیل پنجاب اور سندھ کے متاثرہ علاقوں میں بحالی کے جاری کاموں پر بھی دباؤ ڈال سکتا ہے، جہاں پہلے ہی ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ مزید بارشوں کی صورت میں صورتحال مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے۔

About Aftab Ahmed

Check Also

سمندری کیبل کی مرمت سے انٹرنیٹ سروس متاثر ہونے کا امکان

پی ٹی سی ایل کے مطابق بین الاقوامی کیبل کی مرمت کا کام آج صبح …