اتوار , اکتوبر 12 2025

بارشوں اور سیلاب سے ملک بھر میں 907 اموات، این ڈی ایم اے رپورٹ

پنجاب میں دریائی سیلاب سے 42 لاکھ افراد متاثر، پی ڈی ایم اے رپورٹ

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث 907 افراد جاں بحق اور 1044 زخمی ہوئے جبکہ ہزاروں مکانات اور مویشیوں کو بھی نقصان پہنچا۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے اپنی تازہ رپورٹ میں ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کی تفصیلات جاری کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب تک 907 افراد جاں بحق اور 1044 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ اموات خیبر پختونخوا میں ہوئیں جہاں 502 افراد جاں بحق اور 218 زخمی ہوئے۔ صوبہ پنجاب میں 223 افراد جاں بحق اور 654 زخمی ہوئے، سندھ میں 58 افراد جاں بحق اور 78 زخمی ہوئے، جبکہ بلوچستان میں 26 افراد جاں بحق اور 5 زخمی ہوئے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی بارشوں کے باعث 9 افراد جان سے گئے اور 3 زخمی ہوئے۔ گلگت بلتستان میں 41 افراد جاں بحق اور 52 زخمی ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 38 اموات اور 31 زخمیوں کی اطلاع دی گئی۔

این ڈی ایم اے کے مطابق انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر مالی نقصان بھی ہوا ہے۔ اب تک 7 ہزار 848 مکانات کو مختلف درجے کا نقصان پہنچا ہے، جن میں سے کئی مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 6 ہزار 180 مویشی بھی ہلاک ہو گئے ہیں جس سے دیہی معیشت اور کسان طبقہ شدید متاثر ہوا ہے۔

پاکستان میں مون سون بارشوں کے دوران سیلابی صورتحال کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ملک بار بار بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرتا رہا ہے۔ خاص طور پر 2010 کا سیلاب سب سے تباہ کن سمجھا جاتا ہے، جس میں دو کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے۔ موجودہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ قدرتی آفات کے مقابلے کے لیے بنیادی ڈھانچے اور نظام میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔

ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں کا نظام غیر متوقع ہو گیا ہے، جس کے نتیجے میں سیلاب کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو کلائمٹ چینج کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، تاہم محدود وسائل اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث بروقت حفاظتی اقدامات نہ ہونے سے نقصان میں اضافہ ہوتا ہے۔

این ڈی ایم اے کی جانب سے عوام کو احتیاطی تدابیر اپنانے کی ہدایت بھی کی گئی ہے تاکہ مزید جانی نقصان سے بچا جا سکے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں اور بے گھر ہونے والے خاندانوں کو عارضی شیلٹرز اور خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔

حالیہ بارشوں اور سیلاب نے ایک بار پھر اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے نہ صرف فوری امدادی اقدامات کی ضرورت ہے بلکہ طویل المدتی منصوبہ بندی اور ماحولیاتی پالیسیوں پر عملدرآمد بھی ناگزیر ہے۔

این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی بحالی کے لیے اقدامات جاری ہیں تاہم متاثرہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی یاد دہانی ہے کہ مستقبل میں مزید بہتر حکمت عملی اور تیاری کی ضرورت ہے۔

پی ڈی ایم اے رپورٹ

پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق دریائے راوی، ستلج اور چناب میں آنے والے شدید سیلاب سے 42 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے جبکہ لاکھوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا۔

صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے پنجاب میں حالیہ دریائی سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دریائے راوی، ستلج اور چناب میں آنے والے شدید سیلابی ریلوں سے صوبے کے 4 ہزار 100 سے زائد موضع جات متاثر ہوئے۔ ان علاقوں میں مجموعی طور پر 42 لاکھ 25 ہزار افراد براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔

ریلیف کمشنر پنجاب نبیل جاوید نے بتایا کہ سیلاب کے باعث پھنس جانے والے 20 لاکھ 14 ہزار افراد کو ریسکیو آپریشنز کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ اضلاع میں لوگوں کی بحالی اور سہولت کے لیے 423 ریلیف کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔ ان کیمپس میں سیلاب متاثرین کو خوراک، عارضی رہائش اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

پی ڈی ایم اے کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں 512 میڈیکل کیمپس بھی قائم کیے گئے ہیں جہاں متاثرین کو ابتدائی طبی امداد اور ضروری علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔ محکمہ صحت کی ٹیمیں ان مقامات پر تعینات ہیں تاکہ وبائی امراض کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے اور ایمرجنسی صورتحال میں فوری مدد دی جا سکے۔

پاکستان میں مون سون بارشوں کے دوران دریاؤں میں آنے والا سیلاب کوئی نئی بات نہیں۔ پنجاب کے کئی اضلاع ماضی میں بھی بڑے پیمانے پر متاثر ہوتے رہے ہیں۔ 2014 کے سیلاب میں بھی دریائے چناب اور راوی کے کنارے بسنے والے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے تھے اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی تھیں۔ موجودہ صورتحال ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ دریائی حفاظتی بند، ڈیمز اور فلڈ مینجمنٹ سسٹم میں مزید بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی نشاندہی کرتا ہے، کیونکہ غیر متوقع بارشوں اور تیز پانی کے ریلوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ زرعی پیداوار پر بھی شدید اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ ہزاروں ایکڑ پر فصلیں پانی میں ڈوب چکی ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف کسان طبقے بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

ریلیف کمشنر نبیل جاوید کے مطابق صوبائی حکومت اور متعلقہ ادارے متاثرین کی فوری بحالی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاندانوں کو مالی امداد دینے اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے بھی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔

پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق سیلاب متاثرین کی بڑی تعداد اب بھی حکومتی امداد کی منتظر ہے جبکہ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مکمل بحالی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ ماہرین نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ سیلابی پانی کے اخراج، دریائی پشتوں کی مضبوطی اور لوگوں کی بروقت محفوظ مقامات پر منتقلی کے نظام کو مزید بہتر بنایا جائے تاکہ آئندہ بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے۔

پنجاب میں حالیہ سیلابی صورتحال نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ دریائی علاقوں میں رہنے والی آبادی کو محفوظ بنانے کے لیے نہ صرف ہنگامی ریلیف اقدامات بلکہ طویل المدتی فلڈ مینجمنٹ پالیسیوں پر عملدرآمد بھی ناگزیر ہے۔

About Aftab Ahmed

Check Also

لاہور ٹیسٹ کے پہلے روز پاکستان کے 5 وکٹوں پر 313 رنز

شان مسعود، امام الحق کی نصف سنچریاں، رضوان اور سلمان علی آغا کی شراکت نے …