
روس کی فیڈرل میڈیکل اینڈ بایولوجیکل ایجنسی نے کینسر کے علاج کے لیے ایک نئی ویکسین کی تیاری کا اعلان کیا ہے جو اب کلینیکل استعمال کے لیے تیار ہے۔
روسی سائنسدانوں نے ’’اینٹرومکس‘‘ (Enteromix) کے نام سے ایک کینسر ویکسین تیار کی ہے جو کئی سال کی تحقیق اور تجربات کے بعد کلینیکل سطح پر استعمال کے لیے منظور ہوچکی ہے۔ یہ اعلان ایجنسی کی سربراہ ویرو نیکا اسکورٹسووا نے مشرقی اقتصادی فورم کے دوران کیا، جس کی تصدیق روسی خبر رساں ادارے ’تاس‘ نے بھی کی ہے۔
اینٹرومکس ایم آر این اے (mRNA) ٹیکنالوجی پر مبنی ہے، وہی طریقہ جسے کووڈ 19 کی کچھ ویکسینز میں استعمال کیا گیا تھا۔ اس ٹیکنالوجی کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں وائرس کے کمزور ورژن کو استعمال کرنے کے بجائے جسم کے خلیات کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ ایسے پروٹینز تیار کریں جو مدافعتی نظام کو کینسر کے خلیوں کی شناخت اور ان کے خلاف ردعمل کے لیے تیار کریں۔ یہ حکمت عملی امیونوتھراپی کے جدید طریقۂ علاج سے جڑی ہے جس پر دنیا بھر میں تیزی سے تحقیق کی جارہی ہے۔
ایجنسی کے مطابق ویکسین پر برسوں تحقیق کی گئی اور اس کے تین سالہ پری کلینیکل ٹرائلز مکمل ہوئے۔ ان تجربات میں ثابت ہوا کہ ویکسین بار بار استعمال کے باوجود محفوظ ہے اور بعض اقسام کے کینسر میں ٹیومرز کی افزائش 60 سے 80 فیصد تک کم ہوگئی یا ان کی بڑھنے کی رفتار نمایاں طور پر سست پڑ گئی۔ یہ نتائج ان مریضوں کے لیے امید افزا قرار دیے جارہے ہیں جنہیں روایتی علاج جیسے کیموتھراپی یا ریڈیوتھراپی سے محدود فائدہ ہوتا ہے۔
روسی تحقیقاتی ادارے حالیہ برسوں میں حیاتیاتی اور طبی سائنسز میں نمایاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ کووڈ 19 کے دوران روس نے دنیا کی پہلی رجسٹرڈ ویکسین ’اسپٹنک وی‘ متعارف کروا کر عالمی توجہ حاصل کی تھی، اگرچہ اس کی تقسیم مغربی ویکسینز کے مقابلے میں محدود رہی۔ اب اینٹرومکس کے ذریعے روس نے ایم آر این اے کینسر ویکسین کی دوڑ میں قدم رکھا ہے، وہ شعبہ جس میں امریکا، جرمنی اور چین کی بڑی بایوٹیک کمپنیاں پہلے ہی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ بایونٹیک اور موڈرنا جیسی کمپنیوں نے بھی کینسر کے خلاف ایم آر این اے ویکسینز پر تجربات شروع کیے تھے لیکن تاحال کوئی ویکسین وسیع پیمانے پر منظوری حاصل نہیں کر سکی۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کینسر دنیا بھر میں اموات کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ صرف روس میں ہی ہر سال چھ لاکھ سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ اگر یہ ویکسین کامیابی سے انسانی استعمال میں آئی تو یہ ابتدائی مرحلے کے مریضوں اور ان افراد کے لیے خاص طور پر فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے جن کے پاس روایتی علاج کے سوا کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں۔
جنوبی ایشیا میں بھی کینسر ویکسین کے حوالے سے تحقیق جاری ہے۔ چند ماہ قبل پاکستان نے چھاتی کے سرطان سے بچاؤ کی پہلی ویکسین تیار کرنے کا اعلان کیا تھا، جو اس شعبے میں ایک اور اہم پیش رفت تھی۔ تاہم پاکستانی ویکسین کا مقصد احتیاطی تدابیر فراہم کرنا تھا جبکہ روسی ویکسین علاج پر مبنی ہے، اس طرح دونوں کوششیں طبّی دنیا میں ویکسین کے نئے امکانات اجاگر کرتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ پری کلینیکل نتائج حوصلہ افزا ہیں لیکن اصل چیلنج انسانی ٹرائلز کے دوران سامنے آئے گا۔ اینٹرومکس کو مختلف اقسام کے کینسر اور مختلف مریضوں پر آزمانے کے بعد ہی اس کی حقیقی افادیت ثابت ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر پیداوار، لاگت اور عام مریض تک رسائی بھی مستقبل میں اہم سوالات ہوں گے۔ ماضی میں کینسر کے خلاف کئی ویکسینز نے لیبارٹری میں کامیابی حاصل کی لیکن انسانی سطح پر خاطر خواہ نتائج نہ مل سکے، اسی لیے ماہرین محتاط رویہ اختیار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
اس کے باوجود روسی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ویکسین کلینیکل استعمال کے لیے تیار ہے اور یہ طبّی دنیا میں ایک نئے دور کی علامت ہوسکتی ہے۔ اگر اینٹرومکس کامیاب ثابت ہوا تو یہ نہ صرف روس بلکہ عالمی سطح پر کینسر کے علاج میں ایک بڑی پیش رفت ہوگی، اور اس سے ایم آر این اے پر مبنی ادویات کی افادیت کو مزید تقویت ملے گی۔
کینسر کے خلاف جاری عالمی جدوجہد میں اینٹرومکس کو ایک اہم سنگ میل قرار دیا جارہا ہے، جو مستقبل میں لاکھوں مریضوں کے لیے نئی امید بن سکتا ہے۔