ماہرین صحت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مچھر کے کاٹنے سے بچاؤ ہی ڈینگی سے تحفظ کا سب سے مؤثر طریقہ ہے

ڈینگی دنیا بھر میں ایک اہم عوامی صحت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس وائرس کی چاروں اقسام بنیادی طور پر متاثرہ ایڈیز نسل کے مچھر کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہیں۔ اگرچہ ڈینگی کی ویکسین موجود ہے، لیکن یہ صرف چند مخصوص گروہوں کے لیے امریکی خطوں اور آزاد ریاستوں میں منظور کی گئی ہے، اس لیے زیادہ تر افراد کے لیے مچھر کے کاٹنے سے بچاؤ ہی بنیادی دفاع ہے۔
امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (CDC) کے مطابق مسافروں اور متاثرہ علاقوں کے رہائشیوں کو حفاظتی اقدامات لازمی اپنانے چاہئیں۔ ان میں ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (EPA) سے رجسٹرڈ ریپیلنٹ کا استعمال، ڈھیلے اور لمبی آستین والے کپڑے پہننا، گھر کے اندر اور باہر مچھروں کی افزائش روکنے کے اقدامات کرنا اور کھڑکی یا دروازوں پر جالی لگانا شامل ہیں۔ جہاں ایئر کنڈیشن یا جالی دار کمرے دستیاب نہ ہوں وہاں مچھر دانی کا استعمال ناگزیر ہے۔
ایڈیز مچھر دن اور رات دونوں اوقات میں کاٹتے ہیں جس سے ڈینگی کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کاٹنے کے بعد علامات عام طور پر دو ہفتے کے اندر ظاہر ہوتی ہیں جن میں تیز بخار، شدید سر درد، جوڑوں اور پٹھوں کا درد، متلی اور جِلد پر خارش شامل ہیں۔ ڈینگی بعض اوقات سنگین شکل اختیار کر لیتا ہے جو بروقت علاج نہ ہونے پر جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ماہرین صحت مشورہ دیتے ہیں کہ ڈینگی کے خطرے والے علاقوں سے واپس آنے والے افراد تین ہفتے تک مچھر کے کاٹنے سے بچاؤ کے اقدامات جاری رکھیں تاکہ وائرس مقامی مچھروں کو منتقل نہ ہو۔
ماہرین سیاحت و صحت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سفر سے پہلے تیاری بہت اہم ہے۔ روانگی سے پہلے مسافروں کو اپنی منزل سے متعلق صحت کے نوٹس دیکھنے چاہئیں، ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے اور اپنے سامان میں مچھر بھگانے والی دوا اور پیراسیٹامول (ایسیٹامنفین) ضرور رکھنی چاہیے، جو بخار اور جسمانی درد میں استعمال ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اسپرین اور NSAIDs کا استعمال خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ڈینگی میں خون بہنے کے خطرے کو بڑھاتے ہیں۔
سفر کے دوران مچھر کے کاٹنے سے بچاؤ ہی سب سے مؤثر حکمت عملی ہے۔ ایئر کنڈیشن یا جالی والے کمروں میں قیام، مچھر دانی کا استعمال اور ریپیلنٹ لگانا لازمی اقدامات ہیں۔ اگر بخار، جوڑوں میں درد یا خارش جیسی علامات ظاہر ہوں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں اور انہیں اپنی حالیہ سفری تاریخ سے آگاہ کریں۔
ویکسین کے حوالے سے عوامی صحت کے اصول واضح ہیں کہ “ڈینگویکشیا” نامی ویکسین صرف 9 سے 16 سال کی عمر کے ان بچوں کے لیے منظور کی گئی ہے جنہیں پہلے ڈینگی ہو چکا ہو اور وہ ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہوں جہاں ڈینگی عام ہے، جیسے پورٹو ریکو اور امریکی سموا۔ یہ ویکسین ان مسافروں یا افراد کے لیے دستیاب نہیں جو صرف وقتی طور پر ڈینگی کے خطرے والے علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں گزشتہ دو دہائیوں میں ڈینگی کے کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ شہری آبادی میں تیزی سے اضافہ، موسمیاتی تبدیلی اور بین الاقوامی سفر نے مچھروں کی افزائش اور وائرس کی ترسیل کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق دنیا کی تقریباً نصف آبادی ڈینگی کے خطرے والے علاقوں میں رہتی ہے، جبکہ ایشیا اور لاطینی امریکا سب سے زیادہ متاثرہ خطے ہیں۔ 2023 میں بنگلہ دیش، برازیل اور فلپائن سمیت کئی ممالک میں ڈینگی کے ریکارڈ کیس رپورٹ ہوئے۔
اس بڑھتے خطرے کے پیش نظر ماہرین صحت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ذاتی حفاظت کے ساتھ ساتھ کمیونٹی سطح پر بھی اقدامات لازمی ہیں۔ مچھر مار اسپرے، کھلے پانی کی نکاسی، عوامی آگاہی مہمات اور مچھروں میں وولبیشیا بیکٹیریا چھوڑنے جیسے تجربات ڈینگی کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔
ابھی تک ویکسین تک وسیع پیمانے پر رسائی ممکن نہ ہونے کی وجہ سے ماہرین کہتے ہیں کہ ذاتی احتیاطی تدابیر ہی سب سے قابل اعتماد طریقہ ہیں۔ مچھر کے کاٹنے سے بچاؤ—چاہے گھر میں ہوں، سفر پر یا واپسی کے بعد—ڈینگی سے بچاؤ کے لیے بنیادی قدم ہے۔
ڈینگی دنیا بھر کے لیے ایک بڑھتا ہوا چیلنج ہے، اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ انفرادی احتیاط اور اجتماعی کوششوں سے ہی اس کے پھیلاؤ کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔