ایف بی آر اور ایف آئی اے کی جانب سے ایک دوسرے کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور اب یہ معاملہ قانونی مقدمہ بازی تک جا پہنچا ہے۔
یہ ریاست بنام ریاست کا ایشو ہے کیونکہ ریاست کا ایک ادارہ دوسرے کے خلاف درخواست دائر کر رہا ہے جبکہ سینئر حکام مسئلہ سلجھانے کی بجائے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
صحیح اور غلط پر بحث کرنے سے پہلے حقائق کا پتہ لگانے کی ضرورت ہے۔ شہباز شریف کی قیادت میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قصورواروں کے خلاف کارروائی اور اس مسئلے کو حل کرے۔
لیکن یہ معاملہ شدت اختیار کر رہا ہے کیونکہ ایف آئی اے نے ایف بی آر کے ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشن میر بادشاہ وزیر کو دوسرا نوٹس بھیج کر کہا ہے کہ وہ کرپشن، کک بیکس اور دیگر سنگین الزامات کے تحت ایف آئی اے میں پیش ہوں
ایف آئی اے نے میر بادشاہ خان وزیر کو ایک اور نوٹس جاری کیا ہے کہ لارج ٹیکس پیئر آفس (LTO) لاہور کے حکام کی جانب سے بڑی ٹیکس دہندگان کی کمپنیوں کو ٹیکس ریفنڈز کے معاملے میں وہ ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوں۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ایف آئی اے نے بڑی کمپنیوں کو جاری کردہ ریفنڈ میں ممبر آئی آر آپریشنز سمیت ایف بی آر کے افسران کو طلب کیا تھا۔ ایف بی آر ممبر نے ایف آئی اے کے پہلے نوٹس کا تحریری جواب جمع کرایا تھا۔