
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) راولپنڈی میں ایک بڑے کرپشن اسکینڈل کا پردہ فاش ہوا ہے۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ایف آئی اے کے سینئر افسران نے چینی شہریوں کے زیرِ انتظام غیر قانونی کال سینٹرز سے باقاعدہ رشوت وصول کی اور انہیں تحفظ فراہم کیا۔
ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد میں درج ایف آئی آر کے مطابق، راولپنڈی کے علاقے بحریہ ٹاؤن میں کم از کم 15 کال سینٹرز — جن میں MAKJ International Pvt. Ltd. اور C Dragon Casino شامل ہیں — غیر قانونی طور پر چلائے جا رہے تھے۔ یہ کال سینٹرز چینی شہریوں کے زیرِ انتظام تھے جو پاکستانی ملازمین کو بھاری تنخواہوں پر بھرتی کرتے اور عوام کو مختلف آن لائن اسکیموں کے ذریعے دھوکہ دیتے تھے۔
تحقیقات کے مطابق ایجنسی کے اعلیٰ افسران شہزاد حیدر (ایڈیشنل ڈائریکٹر)، حیدر عباس (ڈپٹی ڈائریکٹر) اور سب انسپکٹر محمد بلال نے نجی سیکیورٹی کمپنی بلو ہاکس کے مالک حسن عامر کے ذریعے بھاری رقوم بطور رشوت حاصل کیں۔ حسن عامر ان غیر قانونی کال سینٹرز کو سیکیورٹی فراہم کرتا اور چینی نمائندے گوا کیشوان عرف کلوِن سے رابطے میں رہتا تھا۔
ستمبر 2024 سے اپریل 2025 تک کے درمیان ملزمان نے ان کال سینٹرز سے ہر ماہ تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے وصول کیے، جس کی مجموعی رقم آٹھ ماہ میں 12 کروڑ روپے سے زائد بنی۔ ہر کال سینٹر سے ماہانہ 5 لاکھ 50 ہزار روپے شہزاد حیدر، 2 لاکھ روپے حیدر عباس، 2 لاکھ روپے محمد بلال اور 50 ہزار روپے حسن عامر کو دیے جاتے تھے۔ علاوہ ازیں محمد بلال ہر نئے کھلنے والے کال سینٹر سے ’’تعاون فیس‘‘ کے نام پر 8 لاکھ روپے وصول کرتا تھا۔
مئی 2025 میں NCCIA انتظامیہ میں تبدیلی کے بعد دوسری ٹیم — عامر نذیر (ایڈیشنل ڈائریکٹر)، ندیم احمد خان (ایکٹنگ ڈپٹی ڈائریکٹر)، سلمان اعوان (ڈپٹی ڈائریکٹر، اینٹی بلاسفیمی یونٹ) اور سب انسپکٹر صارم علی — نے یہ بدعنوانی جاری رکھی اور نیا فرنٹ مین طاہر محی الدین مقرر کیا۔
ایف آئی اے کی ایک بڑی کارروائی میں بحریہ ٹاؤن کے ایک کال سینٹر پر چھاپے کے دوران 14 چینی شہری گرفتار ہوئے، جن میں مرکزی ملزم گوا کیشوان بھی شامل تھا۔ اس کے بعد صارم علی نے گوا کیشوان کی پاکستانی اہلیہ عریبہ رُباب سے 2 کروڑ روپے رشوت طلب کی — 80 لاکھ اپنے شوہر کی رہائی کے لیے اور 1 کروڑ 20 لاکھ دیگر گرفتار چینیوں کے لیے۔
صارم علی نے رقم وصول کرنے کے لیے گوا کیشوان پر تشدد کی ویڈیوز واٹس ایپ پر بھیج کر اس کی بیوی کو دھمکایا۔ مجموعی طور پر 2 کروڑ 10 لاکھ روپے رشوت وصول کی گئی، جس میں سے 17 لاکھ روپے صارم علی نے خود رکھے، 14 لاکھ روپے عثمان بشارت، 10 لاکھ روپے ظہیر عباس نیازی، اور 95 لاکھ روپے ندیم احمد خان کو دیے گئے، جن میں سے 70 لاکھ روپے عامر نذیر کو پہنچائے گئے۔
تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رشوت کی ابتدائی گفت و شنید سلمان اعوان نے کی تھی، جو اس سے قبل بھی ایک الگ کیس میں 1 کروڑ روپے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا جا چکا ہے۔
مزید برآں، 16 جولائی 2025 کو MAKJ International Pvt. Ltd. پر چھاپے کے بعد 7 چینی شہری گرفتار کیے گئے۔ چند گھنٹوں بعد، صارم علی نے اسلام آباد کے آئی-8 مرکز میں تہذیب بیکری کے قریب کھلے عام 1 کروڑ 50 لاکھ روپے رشوت وصول کی، جس میں سے 1 کروڑ 20 لاکھ خود رکھے اور 30 لاکھ اپنے فرنٹ مین طاہر محی الدین کو دیے۔
پہلے گروپ کے افسران، یعنی شہزاد حیدر، حیدر عباس، محمد بلال اور حسن عامر، نے مجموعی طور پر 25 کروڑ روپے جبکہ دوسرے گروپ — عامر نذیر، ندیم احمد خان، سلمان اعوان، صارم علی اور طاہر محی الدین — نے 5 کروڑ روپے رشوت حاصل کی۔
ایف آئی اے نے اس اسکینڈل میں دفعہ 109، 161، 386، 420 تعزیراتِ پاکستان اور انسدادِ بدعنوانی ایکٹ 1947 کی دفعہ 5(2) کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ تحقیقات اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد صفیر احمد، انسپکٹر محمد وحید خان، اور سب انسپکٹر شمس گوندل کی نگرانی میں جاری ہیں۔
ملزمان میں شہزاد حیدر، حیدر عباس، محمد بلال، حسن عامر، عامر نذیر، ندیم احمد خان، سلمان اعوان، صارم علی، عثمان بشارت، ظہیر عباس نیازی، طاہر محی الدین، میاں عرفان، اور چینی شہری گوا کیشوان عرف کلوِن شامل ہیں۔
تحقیقات کے مطابق، عامر نذیر، جو NCCIA پشاور میں ایڈیشنل ڈائریکٹر تعینات ہے، نے کنٹریکٹ پر بھرتی ہونے کے باوجود بغیر فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) امتحان کے اپنی تقرری کو مستقل کروا لیا، جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ اس کا ماضی بھی کرپشن سے بھرا ہوا ہے، وہ چھ سال قبل ایک غیر قانونی گیٹ وے کیس میں ملوث تھا اور رشوت دے کر بچ نکلا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عامر نذیر بعد ازاں ایف آئی اے کے کاؤنٹر ٹیررازم ونگ میں تعینات ہوا، جہاں اس پر معصوم شہریوں کے اغوا اور بھتہ خوری کے الزامات بھی لگے۔
UrduLead UrduLead