مشہور یوٹیوبر ڈکی بھائی کے خلاف جوئے کی تشہیر کے مقدمے میں اب مبینہ طور پر تفتیشی افسر پر رشوت کے مطالبے کا الزام سامنے آگیا ہے

پاکستانی ڈیجیٹل دنیا میں تہلکہ خیز موڑ لینے والا ڈکی بھائی کیس اب ایک نئے تنازعے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق، جوئے کی پروموشن کے الزام میں گرفتار معروف یوٹیوبر ڈکی بھائی اس وقت بھی حراست میں ہیں، جب کہ عدالت سے بارہا ضمانت کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد ان کے خلاف کیس باقاعدہ کارروائی کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔
چند ماہ قبل اس کیس نے پورے سوشل میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ڈکی بھائی پاکستان کے سرکردہ یوٹیوبرز میں شمار ہوتے ہیں جن کی ویڈیوز لاکھوں ناظرین دیکھتے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے آن لائن بیٹنگ اور جوئے کی ایپس کی تشہیر کی اور اس کے عوض بڑی مالی رقوم وصول کیں۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق ان کے بینک اکاؤنٹس سیل کیے گئے اور ان میں کروڑوں روپے کی مشتبہ رقم پائی گئی، جب کہ ان کے ڈیجیٹل کرنسی اکاؤنٹس (بشمول بٹ کوائن) کی تفصیلات بھی زیر تفتیش ہیں۔
اس کیس کی نگرانی نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (NCCIA) کے افسران کر رہے ہیں — ایک ادارہ جو ماضی میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے تحت کام کرتا تھا، مگر بعد ازاں اسے خودمختار ایجنسی کی حیثیت دی گئی۔ اس ایجنسی کا بنیادی مقصد ڈیجیٹل فراڈ، آن لائن بلیک میلنگ، فشنگ اسکیمز، اور جوئے یا فحش مواد کی تشہیر جیسے جرائم کی روک تھام ہے۔
ابتدائی تحقیقات کے دوران ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چودھری کیس کے اہم کردار کے طور پر سامنے آئے، جنہوں نے مختلف میڈیا پلیٹ فارمز پر اس مافیا کی تفصیلات بیان کیں جو بظاہر یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز، اور ڈیجیٹل مارکیٹرز کے ذریعے جوئے کی ایپس کی تشہیر میں ملوث ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک منظم نیٹ ورک ہے جو بیرونی ویب سائٹس سے فنڈنگ لیتا ہے اور پاکستان میں نوجوان ناظرین کو نشانہ بناتا ہے۔
تاہم، معاملہ اس وقت غیر متوقع رخ اختیار کر گیا جب مبینہ طور پر کیس کے انویسٹیگیشن افسر، ایڈیشنل ڈائریکٹر شعیب ریاض، پر سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شعیب ریاض نے ڈکی بھائی کے وکیل سے رابطہ کیا اور مبینہ طور پر ڈیڑھ کروڑ روپے کے عوض ان کے لیے “ریلیف” دلانے کی پیشکش کی۔
یہ الزام ڈکی بھائی کی فیملی کی جانب سے سامنے آیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ انہیں شعیب ریاض کے ایک فرنٹ مین سے رابطہ کرنے کے لیے کہا گیا، جو فیصل آباد سے تعلق رکھتا ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مطلوبہ رقم ادا بھی کردی گئی، تاہم اس کے باوجود ڈکی بھائی کو ضمانت یا کسی قسم کا قانونی ریلیف نہ مل سکا۔
فیملی کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ادائیگی کے بعد بھی کیس کی سمت تبدیل نہیں ہوئی، جس کے باعث اہلِ خانہ نے اب قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس ضمن میں ان کی جانب سے نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کے خلاف بھی باضابطہ شکایت دائر کیے جانے کا امکان ہے۔
ادھر ایجنسی کے ذرائع کا مؤقف ہے کہ ڈکی بھائی کے خلاف تحقیقات مکمل طور پر قانون کے مطابق چل رہی ہیں اور کسی افسر کے خلاف الزام ثابت ہونے کی صورت میں اندرونی انکوائری شروع کی جائے گی۔ اب تک شعیب ریاض یا نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کی جانب سے اس مبینہ رشوت کے الزام پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔
سوشل میڈیا پر اس معاملے نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ ڈیجیٹل کمیونٹی کے کئی معروف چہرے اس مقدمے میں شفافیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کچھ صارفین کے مطابق اگر رشوت کے الزامات درست ہیں تو یہ صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے نظام میں موجود بدعنوانی کی نشاندہی کرتا ہے۔
ڈکی بھائی، جنہوں نے اپنی تفریحی ویڈیوز اور مزاحیہ تبصروں سے لاکھوں فالوورز بنائے، اب اپنے کریئر کے سب سے نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ یوٹیوب پر ان کے چینلز طویل عرصے سے غیر فعال ہیں، جب کہ کئی برانڈز نے ان سے اشتراک ختم کر دیا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جوئے کی پروموشن کا الزام ثابت ہوتا ہے تو یہ پاکستان کے الیکٹرانک کرائم ایکٹ (PECA) اور انسدادِ جوا ایکٹ کی خلاف ورزی ہوگی، جس کی سزا جرمانے کے ساتھ قید بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم، اگر رشوت ستانی کے الزامات درست ثابت ہوئے تو معاملہ تفتیشی اداروں کے لیے بھی سنگین نتائج لا سکتا ہے۔
فی الحال کیس کی تحقیقات جاری ہیں، جب کہ عدالت نے آئندہ سماعت میں ڈکی بھائی کے وکیل اور ایجنسی کے نمائندوں کو طلب کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر عوامی دباؤ بڑھنے کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی اپنے افسران کے کردار کا داخلی جائزہ لے گی۔
ڈکی بھائی کیس اب محض ایک یوٹیوبر کے خلاف مقدمہ نہیں بلکہ پاکستان کے ڈیجیٹل انفلوئنسر کلچر، شفاف تحقیقات، اور ریاستی اداروں میں احتساب کے عمل کا امتحان بن چکا ہے۔ جیسے جیسے شواہد سامنے آئیں گے، یہ مقدمہ آئندہ مہینوں میں پاکستان کی ڈیجیٹل دنیا کی سب سے بڑی قانونی کہانی بن سکتا ہے۔