بدھ , اکتوبر 22 2025

وفاقی وزیر شزا فاطمہ پر قائمہ کمیٹی میں حکومتی اراکین کی سخت تنقید

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کے اجلاس میں حکومتی اراکین نے وفاقی وزیر برائے آئی ٹی شزا فاطمہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آئی ٹی میں ترقی کے بلند دعوے تو کرتی ہے مگر عوام اب بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔

اسلام آباد میں وزارتِ آئی ٹی میں ہونے والے اجلاس کی صدارت چیئرمین کمیٹی امین الحق نے کی۔ اجلاس کے دوران اراکین نے ملک بھر میں موبائل سگنلز اور انٹرنیٹ سروسز کی ناقص کارکردگی پر شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ حکومتی رکن ذوالفقار بھٹی نے وفاقی وزیر شزا فاطمہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “آپ کہتی ہیں ہم آئی ٹی میں امریکا سے آگے ہیں، لیکن میرے حلقے سرگودھا میں تو سگنلز ہی نہیں آتے۔ کیا ہمارے علاقے کے بچے پاکستانی نہیں؟ کیا ہم کمیٹی میں صرف بسکٹ کھانے آتے ہیں؟” ان کے اس جملے پر اجلاس کا ماحول کشیدہ ہوگیا اور انہوں نے غصے میں واک آؤٹ کی کوشش بھی کی، تاہم چیئرمین امین الحق کی مداخلت پر وہ واپس اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔

وفاقی وزیر شزا فاطمہ نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سروس کے مسائل اسپیکٹرم کی کمی کے باعث پیدا ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق ملک بھر میں ٹیلی کام نیٹ ورک صرف 274 میگا ہرٹز کے اسپیکٹرم پر کام کر رہا ہے، جو طلب کے لحاظ سے ناکافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “جب اسپیکٹرم ہی نہیں ہوگا تو چاہے جتنے بھی ٹاورز لگا لیں، سروس بہتر نہیں ہو سکتی۔”

وزیرِ آئی ٹی نے مزید بتایا کہ اسپیکٹرم سے متعلق کیسز عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں، جس کی وجہ سے نیلامی میں تاخیر ہو رہی ہے، تاہم حکومت کی کوشش ہے کہ دسمبر یا جنوری تک اسپیکٹرم آکشن مکمل کر لیا جائے۔ شزا فاطمہ نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ وزارتِ آئی ٹی ملک بھر میں اسپیشل ٹیکنالوجی پارکس اور ای روزگار مراکز قائم کر رہی ہے تاکہ نوجوانوں اور فری لانسرز کو بہتر مواقع فراہم کیے جا سکیں۔

تاہم کمیٹی اراکین نے موقف اختیار کیا کہ آئی ٹی ترقی کے یہ تمام دعوے صرف بڑے شہروں تک محدود ہیں، جبکہ چھوٹے شہروں کے عوام کو بنیادی سہولتیں بھی دستیاب نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو “ڈیجیٹل پاکستان” کے نعرے سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات دکھانے ہوں گے۔

چیئرمین کمیٹی امین الحق نے پی ٹی اے حکام کو آئندہ اجلاس میں طلب کرنے کی ہدایت کی تاکہ موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کی ناقص کارکردگی سے متعلق وضاحت لی جا سکے۔ انہوں نے یمن کے قریب سب میرین کیبل میں فالٹ کے بارے میں بھی استفسار کیا۔ اس پر سیکرٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے بتایا کہ فالٹ ابھی مکمل طور پر دور نہیں ہوا، مگر پاکستان کی انٹرنیٹ ٹریفک کو متبادل راستے پر منتقل کر دیا گیا ہے اور کنسورشیم فالٹ کے خاتمے پر کام کر رہا ہے۔

اجلاس میں اسلام آباد آئی ٹی پارک منصوبے پر بھی بریفنگ دی گئی جس کے مطابق منصوبے کا 80 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ کام تیزی سے جاری ہے۔ وفاقی وزیر شزا فاطمہ نے وضاحت کی کہ منصوبے کی آخری تاریخ 31 اکتوبر مقرر تھی، مگر کورین پروجیکٹ ڈائریکٹرز کی بار بار تبدیلی کے باعث تاخیر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ منصوبہ کورین حکومت کے تعاون سے مکمل کیا جا رہا ہے اور فنڈنگ بھی وہی فراہم کر رہی ہے۔

شزا فاطمہ نے بتایا کہ وزیراعظم نے منصوبے میں تاخیر پر انکوائری کا حکم دے دیا ہے تاکہ وجوہات سامنے لائی جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر منصوبہ تنازع کا شکار ہوا تو اس کے اثرات دیگر شہروں کے آئی ٹی پارکس پر بھی پڑیں گے۔ “ہماری کوشش ہے کہ کورین کمپنی کے ساتھ مل کر منصوبہ مکمل کریں، تاہم اگر وہ علیحدہ بھی ہو جائیں تو حکومت کے پاس بیک اپ پلان موجود ہے۔”

وفاقی وزیر نے کمیٹی سے اپیل کی کہ جب تک منصوبہ مکمل نہیں ہوتا، میڈیا پر بیان بازی سے گریز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسی لیے اجلاس کو ان کیمرہ رکھنے کی درخواست کی تھی تاکہ غیر ضروری تنازعات سے بچا جا سکے۔

بعد ازاں اجلاس میں پی ٹی سی ایل کی جائیدادوں کی خرید و فروخت کے معاملات پر غور کیا گیا جسے چیئرمین کمیٹی نے ان کیمرہ سیشن میں منتقل کر دیا۔ علاوہ ازیں، رکن قومی اسمبلی شاہدہ رحمانی کی جانب سے پیش کیے گئے “ڈیجیٹل میڈیا 2025 بل” کو بھی فی الحال مؤخر کر دیا گیا۔

کمیٹی کے ارکان نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں پی ٹی اے اور ٹیلی کام کمپنیوں سے براہِ راست جواب طلب کیا جائے گا تاکہ عوام کو بہتر انٹرنیٹ اور موبائل سروس فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات یقینی بنائے جا سکیں۔

About Aftab Ahmed

Check Also

پاکستان نے تیسرے دن کے اختتام پر 23 رنز کی برتری حاصل کرلی

راولپنڈی ٹیسٹ کے تیسرے دن کے اختتام پر پاکستان نے دوسری اننگز میں چار وکٹوں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے