مشہور عالم دین مولانا طارق جمیل نے کہا ہے کہ مرد کا خواجہ سرا سے نکاح شرعاً جائز نہیں کیونکہ نکاح کی بنیاد اولاد پر ہے اور خواجہ سرا اس کے قابل نہیں

پاکستان کے معروف مذہبی اسکالر مولانا طارق جمیل نے فیشن ڈیزائنر اور سماجی کارکن ماریہ بی کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں مختلف سماجی و مذہبی موضوعات پر گفتگو کی، جس میں انہوں نے خواجہ سراؤں سے نکاح کے حوالے سے واضح مؤقف اختیار کیا۔
گفتگو کے دوران مولانا نے کہا کہ اسلام میں نکاح کا مقصد صرف ازدواجی تعلق نہیں بلکہ نسل انسانی کا تسلسل ہے، اور چونکہ خواجہ سرا (جنہیں طبّی اصطلاح میں “غیر واضح جنسی خدوخال رکھنے والے” کہا جاتا ہے) اس لحاظ سے مکمل طور پر مرد یا عورت نہیں ہوتے، اس لیے ان کے ساتھ نکاح شرعی طور پر درست نہیں۔
یہ گفتگو اس وقت منظر عام پر آئی جب فیشن ڈیزائنر ماریہ بی، جو حالیہ برسوں میں LGBTQ تحریک کے خلاف اپنے مؤقف کے باعث سرخیوں میں رہی ہیں، نے مولانا طارق جمیل سے مذہب کی روشنی میں ازدواجی اصولوں، خاندان کے ادارے، اور معاشرتی اقدار پر تفصیلی بات چیت کی۔ ماریہ بی “مدرز آف پاکستان” نامی گروپ کا حصہ ہیں جو ملک میں ہم جنس پرستی اور صنفی نظریات کے فروغ کی مخالفت کرتا ہے۔
مولانا طارق جمیل نے گفتگو میں قرآن کریم میں بیان کی گئی قومِ لوط کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا شدید عذاب ان کے غیر فطری افعال کی وجہ سے نازل ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی اگر انسان فطرت کے خلاف جائے تو نتائج اسی طرح تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ مولانا نے واضح کیا کہ اسلام نے نکاح کو انسانی معاشرے کا بنیادی ستون قرار دیا ہے، جو مرد اور عورت کے درمیان ایک مقدس رشتہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بعض لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر کوئی مرد خواجہ سرا سے نکاح کر لے تو یہ جائز ہے، مگر یہ نظریہ شرعی طور پر غلط ہے۔ مولانا طارق جمیل کے مطابق نکاح صرف ان افراد کے درمیان ہو سکتا ہے جو تولید کی صلاحیت رکھتے ہوں، کیونکہ قرآن و سنت میں نکاح کا بنیادی مقصد “نسل کا تسلسل” اور “معاشرتی استحکام” بتایا گیا ہے۔
مولانا نے کہا کہ اسلام میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے، لیکن انہیں مرد یا عورت کے مساوی حیثیت دے کر نکاح جیسے رشتے میں شامل کرنا مذہبی اصولوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ “خواجہ سرا کی مدد، ان کے لیے روزگار یا عزت کا بندوبست کرنا نیکی ہے، مگر ان سے نکاح جائز نہیں۔”
ماریہ بی نے اس موقع پر کہا کہ معاشرے میں آج مغربی نظریات کے اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں اور والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت اسلامی اقدار کے مطابق کریں تاکہ وہ ان نظریات سے متاثر نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ “ہماری تحریک کا مقصد کسی کمیونٹی سے نفرت نہیں بلکہ اپنی تہذیب اور مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی نسلوں کی فکری حفاظت ہے۔”
یہ نشست سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے، جہاں متعدد صارفین نے مولانا طارق جمیل کے بیان کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی گفتگو نے معاشرتی ابہام کو دور کیا۔ کئی لوگوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اسلام نے خواجہ سراؤں کو عزت دی ہے لیکن شادی کے معاملے میں مرد و عورت کے فطری فرق کو برقرار رکھا ہے۔
دوسری جانب کچھ سماجی حلقوں نے ماریہ بی کے مؤقف کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ معاشرتی مباحث میں مذہبی اور سماجی حساسیت کا توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ تاہم، مولانا طارق جمیل کا بیان واضح طور پر مذہبی نقطۂ نظر کی وضاحت کرتا ہے کہ اسلام میں مرد کا خواجہ سرا سے نکاح جائز نہیں اور نکاح کا مقصد محض تعلق نہیں بلکہ نسل انسانی کی بقا ہے۔
مولانا طارق جمیل اس سے قبل بھی معاشرتی اخلاقیات، خاندانی نظام، اور اسلامی اقدار کے فروغ پر گفتگو کرتے رہے ہیں۔ ان کے بیانات عوامی سطح پر وسیع پیمانے پر سنے اور شیئر کیے جاتے ہیں، اور اس نشست نے ایک بار پھر ان کے معتدل مگر واضح مذہبی مؤقف کو اجاگر کیا ہے۔
ان کے اس تازہ بیان کے بعد مذہبی و سماجی حلقوں میں خواجہ سرا اور LGBTQ کے مباحث نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، جس میں اسلامی قانون، انسانی حقوق، اور معاشرتی روایات کے باہمی تعلق پر گفتگو جاری ہے۔