ممبر نیپرا نے خبردار کیا ہے کہ کے-الیکٹرک کے دو بڑے پاور پلانٹس — کے سی سی پی اور بی کیو پی ایس-1 — کی قبل از وقت بندش سے کراچی کو شدید لوڈشیڈنگ اور بلیک آؤٹ کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں

ممبر نیپرا نے اپنے اختتامی نوٹ میں تحریر کیا ہے کہ توانائی کے ماہرین اور نظامی ذرائع نے کے-الیکٹرک کے چار بجلی گھروں کی ممکنہ بندش کے منصوبے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کمبائنڈ سائیکل پاور پلانٹ (KCCP) اور بین قاسم پاور اسٹیشن-1 (BQPS-I) کی ڈی کمیشننگ (Decommissioning) کو کم از کم ایک سال کے لیے مؤخر کیا جائے۔ ماہرین کے مطابق اگر ان پلانٹس کو قبل از وقت بند کر دیا گیا تو کراچی میں بجلی کا نظام غیر مستحکم ہو جائے گا، جس سے صنعتی پیداوار اور روزمرہ زندگی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔
کے-الیکٹرک اپنی بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے نیشنل گرڈ سے درآمدی بجلی پر بڑھتی ہوئی حد تک انحصار کر رہی ہے۔ اگرچہ یہ معاشی طور پر فائدہ مند ہے، تاہم اس سے آپریشنل خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ فی الحال کے-الیکٹرک نیشنل گرڈ سے زیادہ سے زیادہ 2,072 میگاواٹ بجلی درآمد کر سکتی ہے، مگر یہ گنجائش ٹرانسفارمر لوڈنگ، وولٹیج استحکام، اور ٹرانسمیشن لائنز کی تکنیکی حدود سے مشروط ہے۔
ممبر نیپرانے خبردار کیا کہ اگر کسی بڑی ٹرانسمیشن لائن جیسے 500 kV KKI یا 220 kV NKI میں خرابی واقع ہو جائے، اور اسی دوران کے-الیکٹرک کا کوئی بڑا بجلی گھر — مثلاً BQPS-II یا BQPS-III — بند ہو جائے تو کراچی میں 1,000 میگاواٹ سے زائد کا شارٹ فال پیدا ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں نہ صرف وسیع پیمانے پر لوڈشیڈنگ ناگزیر ہوگی بلکہ شہری گرڈ کے استحکام پر بھی سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
توانائی ماہرین کا کہنا ہے کہ کے-الیکٹرک کے اندرونی بجلی گھر صرف بجلی پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ سسٹم کے استحکام اور بحالی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ یونٹس فریکوئنسی ریگولیشن، اسپننگ ریزرو، بلیک اسٹارٹ صلاحیت، سسٹم انرشیا اور آئسولیشن موڈ آپریشن جیسی تکنیکی صلاحیتیں فراہم کرتے ہیں، جو کسی بھی ہنگامی صورتحال میں نظام کی فوری بحالی کے لیے ناگزیر ہیں۔ اگر یہ یونٹس بند کیے گئے تو کے-الیکٹرک اپنی بنیادی بحالی کی صلاحیت کھو دے گا اور شہر کسی ممکنہ بلیک آؤٹ کے بعد طویل اندھیرے میں جا سکتا ہے۔
دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت 2,072 میگاواٹ سے زائد کی کوئی اضافی انٹرکنکشن گنجائش موجود نہیں اور نہ ہی کراچی کے لائسنس یافتہ علاقے میں کوئی مرچنٹ پاور پلانٹ کام کر رہا ہے جو مارکیٹ کی بنیاد پر مستقل اور دستیاب بجلی فراہم کر سکے۔ اسی طرح ایسی کوئی ریگولیٹری پالیسی بھی تاحال نافذ نہیں کی گئی جو کے-الیکٹرک کو بیرونی مرچنٹ جنریٹرز سے مستقل سپلائی حاصل کرنے کی اجازت دے۔
مجوزہ اقدامات
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ KCCP اور BQPS-I کی بندش کو مؤخر کیا جائے اور اس دوران تین اہم اقدامات کیے جائیں:
اول، ایک مرچنٹ پاور مارکیٹ کا قیام عمل میں لایا جائے جس کے ذریعے نجی بجلی گھروں کو کے-الیکٹرک کے نظام میں شامل کیا جا سکے اور انہیں فِرم اور اسٹینڈ بائی سپلائی فراہم کرنے کی ذمہ داری دی جائے۔
دوم، نیشنل گرڈ سے مستقل سپلائی کے معاہدے کیے جائیں تاکہ کے-الیکٹرک کو ہنگامی حالات میں بھی یقینی اور ڈسپاچیبل بجلی دستیاب ہو۔
سوم، نئے انٹرکنکشن کوریڈورز کی تکمیل اور موجودہ گرڈ کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے تاکہ زیادہ مقدار میں درآمدی بجلی محفوظ طریقے سے حاصل کی جا سکے۔
ماہرین کا انتباہ
توانائی ماہرین کے مطابق اگر ان تجاویز پر عمل درآمد کیے بغیر بجلی گھروں کو بند کیا گیا تو کے-الیکٹرک کی آپریشنل لچک (Operational Flexibility) میں نمایاں کمی واقع ہو جائے گی، جس سے گرمیوں کے موسم میں شہر کی توانائی کی ضروریات پوری کرنا مشکل ہو جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ کراچی جیسے میگا سٹی میں جہاں بجلی کی طلب اور رسد کے درمیان فرق پہلے ہی بڑھ رہا ہے، وہاں اندرونی جنریشن کی کمی شہری انفراسٹرکچر کے لیے شدید خطرہ بن سکتی ہے۔
رپورٹ میں حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ بجلی گھروں کی ڈی کمیشننگ سے قبل جامع منصوبہ بندی، متبادل انتظامات اور نیشنل گرڈ کے ساتھ قابلِ اعتماد انضمام کو یقینی بنایا جائے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو آنے والے موسمِ گرما میں کراچی میں شدید لوڈشیڈنگ، صنعتی سرگرمیوں کی معطلی اور ممکنہ بلیک آؤٹ کے خدشات بڑھ جائیں گے، جو نہ صرف عوام بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی بڑا چیلنج ثابت ہوں گے۔
UrduLead UrduLead