
وفاقی اور پنجاب حکومت کی کوششوں کے باوجود ملک بھر میں چینی کی قیمتیں کم نہ ہوسکیں ، اور بدستور چینی کی قیمت دوسوروپے فی کلو کے لگ بھگ ریٹیل میں فروخت کی جارہی ہے
چینی کی بے لگام قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ راناتنویر حسین نے ایک بار پھر شوگر ملز ایسوسی ایشنز (پی ایس ایم اے ) کو سختی سے وارننگ دی ہے کہ وہ حکومتی فیصلوں پر عمل کرے ورنہ ان کے خلاف ملک گیر کریک ڈائون ہوگا
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ حکومت ازخود منافع خوری ، ذخیرہ اندوزی اور زائد قیمتوں پر چینی فروخت کرنے والی شوگرملوں کے خلاف سخت کاروائی کرے گی
انھوں نے تمام صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر عملدرآمد کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں اور اضلاع کی سطح پر نگرانی کا نظام مزید موثر بنایا جائے تاکہ کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی فوری نشاندہی اور روک تھام ہو سکے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ ملک میں بار بار پیدا ہونے والے چینی بحران کی بنیادی وجہ سیاسی اثر و رسوخ، شوگر مافیا کا گٹھ جوڑ اور ناقص پالیسی سازی ہے۔
ڈان اخبار کے مطابق ایک سیمینار میں ماہرین نے ملک میں جاری چینی بحران کی اصل وجوہات سیاسی اثر و رسوخ، شوگر مافیا (کارٹیلائزیشن)، اشرافیہ کلچر، پرانی زرعی تکنیکیں اور مناسب پالیسی فریم ورک کی عدم موجودگی کو قرار دیا۔
دوسری جانب پاکستان سے 50 ہزار ٹن چینی خریدنے کے لیے جاری کیے گئے بین الاقوامی ٹینڈر کی آخری تاریخ منگل کو ختم ہو گئی، لیکن کسی بھی تجارتی کمپنی کی جانب سے قیمت کی پیشکش موصول ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔ شپمنٹ اور آمد کی مدت کو بہت مختصر سمجھا گیا، جس کی وجہ سے حقیقت پسندانہ پیشکشیں دینا ممکن نہیں تھا۔
سرکاری ادارے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان(ٹی سی پی)کی جانب سے جاری کردہ اس ٹینڈر میں یکم سے 15 اگست کے دوران لوڈنگ کا مطالبہ کیا گیا تھا، جب کہ پوری خریدی گئی مقدار 30 اگست تک پاکستان پہنچانے کی شرط رکھی گئی تھی۔
پنجاب کریانہ ایسوسی ایشن نے دکانداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ چینی کا ذخیرہ نہ کریں اور نہ ہی فروخت کریں۔ریٹیلرز نے پیر سے حکومت کی جانب سے مقرر کردہ 173 روپے فی کلو کی قیمت پر چینی بیچنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ چینی 188 روپے فی کلو میں خرید چکے ہیں، اس لیے سرکاری نرخ پر فروخت ممکن نہیں۔
پنجاب کریانہ ایسوسی ایشن کے مطابق “پنجاب کریانہ ایسوسی ایشن نے جرمانوں اور مقدمات سے بچنے کے لیے چینی فروخت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صرف وہی دکاندار چینی فروخت کریں گے جن کے پاس پرانا اسٹاک موجود ہے، جبکہ ریٹیلرز تھوک فروشوں سے نیا اسٹاک نہیں خریدیں گے۔