
خیبرپختونخوا اسمبلی میں آج نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس طلب کر لیا گیا ہے، جس سے صوبے کی سیاسی فضا ایک بار پھر گرما گئی ہے۔ ایک جانب گورنر کی جانب سے سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے استعفے پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں، تو دوسری جانب تحریک انصاف نے کسی بھی رکاوٹ کی صورت میں احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق گورنر خیبرپختونخوا نے علی امین گنڈاپور کے استعفے پر دستخطوں میں فرق کا اعتراض اٹھایا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ استعفیٰ کی توثیق سے قبل اس کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ تاہم صوبائی حکومت نے گورنر کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب آج ہی عمل میں لایا جائے گا۔
اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نے واضح کیا ہے کہ علی امین گنڈاپور نے آئین کے آرٹیکل 130 کے تحت باقاعدہ استعفیٰ دیا، اور آئین میں کسی استعفے کی منظوری یا نامنظوری کا کوئی تصور موجود نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنر کی جانب سے اعتراضات محض تاخیری حربہ ہیں جن کی آئین میں کوئی بنیاد نہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعلیٰ کے انتخاب کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن کے وکلا نے آئینی درخواست کی تیاری مکمل کر لی ہے، اور ذرائع کے مطابق معروف قانونی ماہر سلمان اکرم راجہ آج عدالت میں اپوزیشن کے ممکنہ مؤقف کی نمائندگی کریں گے۔ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ جب تک سابق وزیراعلیٰ کے استعفے کی تصدیق نہیں ہو جاتی، نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب آئینی طور پر ممکن نہیں۔
ادھر تحریک انصاف کی جانب سے ردعمل میں گزشتہ شب وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایک اہم پارلیمانی اجلاس منعقد ہوا، جس میں پارٹی کے مطابق 92 ارکانِ اسمبلی نے شرکت کی۔ اجلاس میں پارٹی امیدوار سہیل آفریدی کو متفقہ طور پر وزیراعلیٰ نامزد کیا گیا اور تمام ارکان نے حلف اٹھایا کہ وہ انتخاب میں انہیں ووٹ دیں گے۔
پارٹی ذرائع کے مطابق، اگر وزیراعلیٰ کے انتخاب میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالی گئی تو تحریک انصاف بھرپور سیاسی اور عوامی احتجاج کرے گی۔ پارٹی قیادت نے تمام ضلعی تنظیموں اور کارکنوں کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت جاری کر دی ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ صورتِ حال سے نمٹا جا سکے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں جاری یہ آئینی تنازع صوبے میں ایک نئے سیاسی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ گورنر اور اسمبلی کے مابین اختیارات کی یہ کشمکش مستقبل میں وفاق اور صوبے کے تعلقات پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔
ماضی میں بھی خیبرپختونخوا میں وزرائے اعلیٰ کی تبدیلی کے مواقع پر آئینی وضاحت کے معاملات اٹھتے رہے ہیں۔ تاہم اس بار صورتحال اس لیے زیادہ حساس ہے کہ تحریک انصاف صوبے میں واضح اکثریت رکھتی ہے اور کسی بھی تاخیر کو سیاسی مداخلت سمجھا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اپوزیشن عدالت سے رجوع کرتی ہے اور عدالت انتخابی عمل پر حکمِ امتناع جاری کرتی ہے تو آج کا اجلاس غیر مؤثر ہو سکتا ہے۔ تاہم اگر اسمبلی اپنا اجلاس جاری رکھتی ہے تو آئینی و سیاسی بحران مزید گہرا ہونے کا خدشہ ہے۔
ادھر عوامی سطح پر بھی اس سیاسی صورتحال پر گہری دلچسپی پائی جا رہی ہے، جبکہ سوشل میڈیا پر گورنر کے اقدام اور اسمبلی کے فیصلے دونوں پر بحث جاری ہے۔ شہریوں نے امید ظاہر کی ہے کہ صوبے کی قیادت میں پیدا ہونے والا خلا جلد پُر ہو گا تاکہ حکومتی امور متاثر نہ ہوں۔
آج کا دن خیبرپختونخوا کی سیاست کے لیے نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس اجلاس کے نتیجے میں یا تو نیا وزیراعلیٰ منتخب ہو جائے گا یا معاملہ عدالت کے دروازے پر جا پہنچے گا۔ دونوں صورتوں میں صوبے کا سیاسی منظرنامہ آئندہ کئی ہفتوں تک کشیدہ رہنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔