
پاکستان میں آج سے ملک گیر قومی پولیو مہم کا آغاز ہو گیا ہے، جس کے دوران ملک کے 159 اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔
نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر (نیشنل ای او سی) کے مطابق یہ مہم 13 سے 19 اکتوبر تک جاری رہے گی، جس میں 4 کروڑ 54 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس موقع پر بچوں کو پولیو ویکسین کے ساتھ وٹامن اے کی اضافی خوراک بھی دی جائے گی تاکہ ان کی مجموعی قوتِ مدافعت کو بہتر بنایا جا سکے۔
نیشنل ای او سی کے مطابق ملک بھر میں اس مہم کے دوران 4 لاکھ سے زائد ہیلتھ ورکرز گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو ویکسین پلائیں گے۔ یہ ٹیمیں دور دراز دیہی علاقوں، کچی آبادیوں اور پہاڑی خطوں تک رسائی یقینی بنائیں گی تاکہ کوئی بچہ ویکسین سے محروم نہ رہے۔
تاہم جنوبی خیبر پختونخوا کے اضلاع میں پولیو مہم دیگر علاقوں کے مقابلے میں کچھ تاخیر سے شروع کی جائے گی، جو 20 سے 23 اکتوبر تک منعقد ہوگی۔ اس تاخیر کی وجہ مقامی سیکیورٹی انتظامات اور موسمی حالات بتائی گئی ہے۔
نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر نے والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے قطرے لازمی پلائیں۔ ترجمان کے مطابق، ’’پولیو کے خاتمے کے لیے والدین کا تعاون انتہائی اہم ہے۔ اگر ایک بھی بچہ ویکسین سے محروم رہ گیا تو وائرس کے دوبارہ پھیلنے کا خطرہ برقرار رہے گا۔‘‘
مزید کہا گیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو پیدائش سے 15 ماہ کی عمر تک حفاظتی ٹیکوں کا مکمل کورس ضرور مکمل کروائیں تاکہ انہیں قابلِ انسداد بیماریوں سے تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
پولیو مہم کے دوران وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ تمام صوبائی محکمہ صحت، ضلعی انتظامیہ، پولیس اور سول سوسائٹی اداروں کو مہم کی کامیابی کے لیے متحرک کر دیا گیا ہے۔ وزارتِ صحت کے مطابق، مہم کے دوران نگرانی کے خصوصی مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں تاکہ ویکسین کی ترسیل، اسٹوریج اور فراہمی کے عمل کو موثر انداز میں جاری رکھا جا سکے۔
پاکستان اور افغانستان دنیا کے دو ایسے ممالک ہیں جہاں اب بھی پولیو وائرس مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکا۔ رواں سال اب تک ملک میں پولیو کے چند کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جس کے بعد حکومت نے اس مہم کو خاص اہمیت دی ہے تاکہ وائرس کے مکمل خاتمے کو یقینی بنایا جا سکے۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) اور یونیسف نے بھی مہم کے دوران تکنیکی اور لاجسٹک معاونت فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ان اداروں نے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں کو ’’عالمی سطح پر ایک اہم اقدام‘‘ قرار دیا ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پولیو کے خلاف جنگ میں صرف ویکسینیشن مہمات ہی نہیں بلکہ عوامی آگاہی بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ انسدادِ پولیو ٹیموں کے ساتھ بھرپور تعاون کریں، اپنے گھروں کے دروازے کھولیں اور پولیو ورکرز کی رہنمائی میں اپنے بچوں کو قطرے پلوائیں۔
قومی پولیو مہم کے آغاز کے ساتھ ہی ملک میں امید کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے کہ اگر موجودہ اقدامات تسلسل کے ساتھ جاری رہے تو جلد پاکستان بھی پولیو فری ممالک کی صف میں شامل ہو سکے گا۔