
پاکستان کسٹمز (انفورسمنٹ) کراچی کے میرین یونٹ نے سمندری حدود میں ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے تین لانچوں سے 132,564 لیٹر ایرانی اسمگل شدہ ہائی اسپیڈ ڈیزل پکڑ لیا، جسے سمندری راستے سے پاکستان لایا جا رہا تھا۔ حکام کے مطابق یہ کارروائی 9 اور 10 اکتوبر 2025 کی درمیانی شب خفیہ اطلاع پر عمل کرتے ہوئے کی گئی۔
کسٹمز انفورسمنٹ کراچی کے مطابق خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ ایرانی پٹرولیم مصنوعات ساحلی راستے سے پاکستان میں داخل کی جا رہی ہیں۔ اطلاع ملنے پر میرین انفورسمنٹ ٹیم، جس میں پریوینٹیو افسران ایاز علی اور سلیم یوسف شامل تھے، فوری طور پر گہرے سمندر میں آپریشن کے لیے روانہ ہوئی۔ ٹیم نے سومیانی، پھور اور ساپت کے علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے تینوں لانچوں کا کامیابی سے سراغ لگایا اور انہیں پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ روک لیا۔
تمام لانچوں کو بغیر کسی جانی نقصان کے قبضے میں لے کر کراچی پورٹ پر اے ایس او دفتر منتقل کر دیا گیا۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق ضبط شدہ ڈیزل کی مالیت تقریباً 33.14 ملین روپے ہے جبکہ تینوں لانچوں کی مجموعی مالیت 45 ملین روپے بتائی گئی ہے۔ یوں ضبط شدہ سامان کی کل مالیت 78.14 ملین روپے بنتی ہے، جو کسٹمز میرین یونٹ کی تاریخ کی سب سے بڑی کارروائیوں میں سے ایک قرار دی جا رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس کامیابی سے قبل ستمبر 2025 میں بھی میرین ٹیم نے اورماڑہ اور سونمیانی کے ساحلی علاقوں میں اسمگلنگ کے خلاف اہم کارروائیاں کی تھیں، جن میں بالترتیب 18,271 لیٹر اور 29,272 لیٹر ایرانی ڈیزل برآمد کیا گیا تھا۔ مسلسل کامیاب کارروائیاں کسٹمز میرین یونٹ کی مؤثر نگرانی، تیز ردعمل اور مضبوط آپریشنل ہم آہنگی کا ثبوت ہیں۔
ترجمان پاکستان کسٹمز نے کہا کہ محدود افرادی قوت اور وسائل کے باوجود میرین انفورسمنٹ ٹیم نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت، مستعدی اور عزم کے ذریعے سمندری اسمگلنگ کے منظم نیٹ ورک کو مؤثر طور پر ناکام بنایا ہے۔
ترجمان کے مطابق، “یہ کامیابی میرین یونٹ کی انتھک محنت اور بہتر کوآرڈینیشن کا نتیجہ ہے۔ کسٹمز انفورسمنٹ اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ سمندری نگرانی کو مزید مضبوط بنایا جائے گا تاکہ قومی ریونیو کے تحفظ اور معیشت کو اسمگلنگ کے خطرات سے بچایا جا سکے۔”
حکام کے مطابق مستقبل میں جدید ٹیکنالوجی، بحری نگرانی کے آلات اور تربیت یافتہ اہلکاروں کے ذریعے اسمگلنگ کے خلاف کارروائیاں مزید مؤثر بنائی جائیں گی تاکہ پاکستان کے معاشی مفادات کا ہر سطح پر تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔