کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان نے اسٹیل کی قیمتوں میں گٹھ جوڑ ثابت ہونے پر ملک کی دو بڑی کمپنیوں، عائشہ اسٹیل ملز اور انٹرنیشنل اسٹیلز لمیٹڈ، پر مجموعی طور پر 1.56 ارب روپے جرمانہ عائد کر دیا۔

کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے اسٹیل کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کرنے، گٹھ جوڑ اور مارکیٹ میں مسابقت کو متاثر کرنے کے الزام میں عائشہ اسٹیل ملز لمیٹڈ اور انٹرنیشنل اسٹیلز لمیٹڈ کو کارٹلائزیشن کا مرتکب قرار دیتے ہوئے مجموعی طور پر ڈیڑھ ارب روپے سے زائد جرمانہ عائد کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ کمپٹیشن کمیشن کے دو رکنی بینچ — چیئرمین ڈاکٹر کبیر احمد سدھو اور ممبر بشریٰ ناز — نے جاری کیا، جس میں دونوں کمپنیوں کو مسابقتی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا۔
فیصلے کے مطابق، عائشہ اسٹیل ملز لمیٹڈ پر 648,304,180 روپے (64 کروڑ 83 لاکھ 4 ہزار روپے) اور انٹرنیشنل اسٹیلز لمیٹڈ پر 914,236,980 روپے (91 کروڑ 42 لاکھ 36 ہزار روپے) کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ یہ جرمانہ دونوں کمپنیوں کے سالانہ ٹرن اوور کا ایک فیصد ہے۔
سی سی پی کے مطابق، تحقیقات سے ثابت ہوا کہ دونوں اسٹیل کمپنیوں نے جولائی 2020 سے دسمبر 2023 تک باہمی گٹھ جوڑ کے ذریعے اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اور بیک وقت اضافہ کیا۔ یہ عمل کمپٹیشن ایکٹ 2010 کے سیکشن 4(1) اور سیکشن 4(2)(a) کی صریح خلاف ورزی ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، کارٹل نے تین سال کے دوران اسٹیل مصنوعات کی قیمتوں میں اوسطاً 111 فیصد اضافہ کیا۔ خام اسٹیل کی فی ٹن قیمت میں 1 لاکھ 46 ہزار روپے تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ مارکیٹ میں یہ اضافہ طلب و رسد کے بجائے باہمی مفاہمت کے تحت کیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ دونوں کمپنیوں نے قیمتوں کے تعین میں یکسانیت پیدا کی، تجارتی حساس معلومات کا تبادلہ کیا، اور مارکیٹ میں مسابقت کو مسخ کر کے صارفین کو نقصان پہنچایا۔ بینچ نے قرار دیا کہ یہ اقدام ’’قانونی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے سنگین جرم‘‘ ہے، جس سے پاکستان کی معیشت پر براہ راست منفی اثرات مرتب ہوئے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ فلیٹ اسٹیل ملک کی معیشت میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ تعمیرات، آٹوموبائل، گھریلو آلات، زراعت اور صنعتی شعبوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی قیمتوں میں کسی بھی مصنوعی اضافے سے نہ صرف صنعتی پیداوار متاثر ہوتی ہے بلکہ صارفین پر بھی مہنگائی کا بوجھ بڑھتا ہے۔
بینچ نے نشاندہی کی کہ پاکستان کا اسٹیل سیکٹر غیر منظم ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین میں اس شعبے پر سخت ریگولیٹری نگرانی موجود ہے۔ ایسی صورتحال میں سی سی پی کی ذمہ داری ہے کہ وہ مارکیٹ میں شفافیت، مسابقت اور صارفین کے مفاد کا تحفظ یقینی بنائے۔
تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ دونوں کمپنیوں کی انتظامیہ اور چیف ایگزیکٹو افسران اس گٹھ جوڑ میں براہ راست ملوث تھے۔ ان کے درمیان قیمتوں کے فارمولے اور نرخوں کے تعین سے متعلق معلومات کا باقاعدہ تبادلہ کیا جاتا رہا، جس سے مارکیٹ میں ’’مصنوعی قیمتوں‘‘ کا ماحول قائم ہوا۔
کمپٹیشن کمیشن نے اس بنیاد پر قرار دیا کہ دونوں کمپنیوں نے جان بوجھ کر اور طویل عرصے تک قانون کی خلاف ورزی کی، لہٰذا وہ کسی رعایت یا نرمی کی مستحق نہیں۔ کمیشن نے دونوں اداروں کو ہدایت دی کہ وہ 60 دنوں کے اندر جرمانے کی رقم قومی خزانے میں جمع کرائیں، بصورت دیگر تاخیر کی صورت میں روزانہ ایک لاکھ روپے کا اضافی جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب سی سی پی نے مئی 2021 میں اسٹیل سیکٹر میں قیمتوں کے غیر معمولی اضافے اور ممکنہ کارٹلائزیشن کی شکایات موصول ہونے پر باضابطہ انکوائری شروع کی تھی۔
12 جون 2024 کو کمپٹیشن کمیشن کی ٹیموں نے عائشہ اسٹیل ملز اور انٹرنیشنل اسٹیلز کے دفاتر پر چھاپے مار کر قیمتوں کے تعین اور معلومات کے تبادلے سے متعلق اہم شواہد حاصل کیے۔ قیمتوں کے تجزیے سے ظاہر ہوا کہ دونوں کمپنیوں نے ایک ہی وقت میں نرخ بڑھائے — جو مارکیٹ میکانزم کے بجائے باہمی گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا۔
اس کے بعد، مارچ 2025 میں دونوں کمپنیوں کو شو کاز نوٹسز جاری کیے گئے، جن میں ان پر کمپٹیشن ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے گئے۔ سماعتوں کے دوران جمع کرائے گئے شواہد، کمپنیوں کی ای میلز اور قیمتوں کی ٹائم لائنز نے گٹھ جوڑ کو واضح طور پر ثابت کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’’یہ مقدمہ پاکستان میں مسابقت کے فروغ اور غیر شفاف کاروباری رویوں کے خاتمے کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ بینچ نے یہ بھی قرار دیا کہ کارٹلائزیشن اور قیمتوں کے تعین میں ہم آہنگی نہ صرف صارفین بلکہ ملکی صنعتوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے، اور مستقبل میں اس طرز عمل کی کسی بھی کوشش کو سختی سے روکا جائے گا۔
سی سی پی کے مطابق، یہ فیصلہ دیگر کاروباری اداروں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ اگر وہ مارکیٹ میں مصنوعی قیمتوں، گٹھ جوڑ یا مسابقتی قوانین کی خلاف ورزی میں ملوث پائے گئے تو ان کے خلاف سخت کارروائی اور بھاری جرمانے کیے جائیں گے۔
کمپٹیشن کمیشن نے کہا کہ ’’پاکستان میں ایک آزاد، منصفانہ اور شفاف مارکیٹ معیشت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ تمام ادارے قانون کے مطابق مقابلے میں شریک ہوں — نہ کہ گٹھ جوڑ کے ذریعے عوام پر مالی بوجھ ڈالیں۔‘‘
ماہرین کے مطابق، یہ فیصلہ اسٹیل سیکٹر کے لیے ایک مثبت نظیر قائم کرے گا اور مستقبل میں مارکیٹ میں مصنوعی قیمتوں کے استحصال کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوگا۔