اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے لیکن روایتی اور جوہری طاقت کے ساتھ امت مسلمہ کے دفاع کے لیے تیار ہے

پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان بطور ایٹمی طاقت مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مؤثر ردعمل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے یہ بات الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی جو پیر کی شب نشر ہوا، جس میں مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی حملوں کے تناظر میں مسلم دنیا کے ممکنہ ردعمل پر گفتگو کی گئی۔
ڈار نے واضح کیا کہ اگر اسلامی ممالک اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی مشترکہ سیکیورٹی ادارہ یا فوجی اتحاد قائم کرتے ہیں تو پاکستان اس کا حصہ بننے کو تیار ہوگا۔ ان کا کہنا تھا، “کیوں نہیں؟ اس میں کیا برائی ہے؟ عرب ممالک کی ایک مشترکہ فوج ہونی چاہیے جو جارحیت کے بجائے امن کے قیام کے لیے کام کرے۔” انہوں نے کہا کہ ایسی فورس کا مقصد قابض قوت کو روکنا اور خطے میں استحکام پیدا کرنا ہونا چاہیے۔
انہوں نے اس سوال پر کہ “جوہری طاقت رکھنے والا پاکستان اس منظرنامے میں کہاں کھڑا ہوگا؟” جواب دیا کہ پاکستان اپنی جوہری حیثیت کو دفاعی حکمت عملی کے تحت استعمال کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہمارا جوہری پروگرام ڈیٹرنس کے لیے ہے، نہ کہ جارحیت کے لیے۔” تاہم انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کی روایتی فوج، فضائیہ اور بحریہ بھی مکمل طور پر مؤثر اور تجربہ کار ہیں، اور “اگر چیلنج کیا جائے تو پاکستان روایتی طور پر بھی اپنے حریف کو شکست دے سکتا ہے۔”
ڈار نے اسرائیل کی جانب سے قطر میں حماس رہنماؤں پر کیے گئے حالیہ حملے کو “غیرذمہ دارانہ” اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ قطر اس وقت امریکا اور مصر کے ساتھ مل کر غزہ میں امن مذاکرات کی ثالثی کر رہا تھا، اور اسرائیل نے جان بوجھ کر امن عمل کو سبوتاژ کیا۔
اس موقع پر وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے کردار پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “اگر سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے تو پھر عالمی نظام پر اعتماد کیسے کیا جائے؟” انہوں نے خاص طور پر بھارت کے زیر تسلط کشمیر اور اسرائیل کی فلسطین پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان دونوں ممالک نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کیا ہے۔
ڈار نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اقوام متحدہ میں اصلاحات ناگزیر ہیں اور سلامتی کونسل کو ایک ایسا طریقہ کار اپنانا ہوگا جو قراردادوں کی خلاف ورزی پر عملی اقدامات کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ “ریاست بڑی ہو یا چھوٹی، اس کی عزت اور وقار یکساں ہونا چاہیے۔” انہوں نے بھارت پر بالادستی کے زعم کا الزام لگاتے ہوئے یاد دلایا کہ پاکستان نے حالیہ برسوں میں بھارت کی جارحیت کا مؤثر جواب دیا ہے، خاص طور پر مئی کے مہینے میں ہونے والی محدود جھڑپوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “بالادستی دفن ہو گئی۔”
انٹرویو میں گفتگو کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ اسرائیل کی جانب سے قطر پر حملے کے بعد کیا پاکستان بھی نشانہ بن سکتا ہے؟ اسحاق ڈار نے جواب میں کہا کہ بھارت نے ماضی میں پاکستان پر حملے کی کوشش کی تھی جسے اسرائیل کی مکمل حمایت حاصل تھی، تاہم دنیا نے دیکھا کہ یہ دعویٰ بے نقاب ہوگیا۔
غزہ کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے سفارتکاری اور مذاکرات کو بہترین حل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ عمل وقت لیتا ہے، لیکن اگر نیت صاف ہو اور فریقین مخلص ہوں تو میز پر بیٹھ کر مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔” انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے بغیر امن ممکن نہیں اور اگر کسی فریق کے توسیع پسندانہ عزائم ہوں تو وہ کبھی سنجیدہ مذاکرات نہیں کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاست کے لیے ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے اور پاکستان خطے میں کسی بھی قسم کے عدم استحکام سے بچنا چاہتا ہے کیونکہ اس کے اثرات سرحدوں سے باہر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کے نظام میں اصلاحات کے لیے اجتماعی کوشش کرے تاکہ مستقبل میں کسی جارحیت کو مؤثر طریقے سے روکا جا سکے۔
اس بیان کے ذریعے اسحاق ڈار نے نہ صرف پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کے اہم نکات واضح کیے بلکہ مسلم دنیا کو ایک اجتماعی سیکیورٹی ڈھانچے کی تشکیل پر غور کرنے کی ترغیب بھی دی۔ ان کا یہ پیغام موجودہ جغرافیائی تناؤ اور اسرائیلی حملوں کے پس منظر میں اہم سفارتی پہل قرار دیا جا رہا ہے۔
ڈار کا دو ٹوک مؤقف یہ تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود امن کا خواہاں ہے، لیکن اگر امت مسلمہ کو دفاع کی ضرورت پڑی تو پاکستان نہ صرف آواز بلند کرے گا بلکہ عملی طور پر ساتھ بھی دے گا۔
#Pakistan #NuclearPower #MuslimUnity #IslamicWorld #Pakistanzindabad