وزارت خزانہ نے یکم ستمبر سے پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق کر دیا ہے جس کے مطابق پیٹرول کی قیمت برقرار جبکہ ڈیزل اور دیگر مصنوعات سستی کر دی گئی ہیں

وزارت خزانہ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پیٹرول کی موجودہ قیمت 264 روپے 61 پیسے فی لیٹر برقرار رہے گی۔ تاہم ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 3 روپے فی لیٹر کمی کی گئی ہے جس کے بعد نئی قیمت 269 روپے 99 پیسے فی لیٹر مقرر کر دی گئی ہے۔
اسی طرح مٹی کے تیل کی قیمت میں ایک روپے 46 پیسے کمی کی گئی ہے اور یہ 176 روپے 81 پیسے فی لیٹر پر دستیاب ہوگا۔ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 2 روپے 40 پیسے کمی کے بعد یہ 159 روپے 76 پیسے فی لیٹر مقرر کر دی گئی ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق یہ نئی قیمتیں یکم ستمبر سے نافذالعمل ہیں۔
پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل ہر پندرہ روز بعد اوگرا کی سفارش پر کیا جاتا ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر اس فیصلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حالیہ اعلان میں پیٹرول کی قیمت کو مستحکم رکھنے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ملک میں مہنگائی کے دباؤ اور بجلی و گیس کی بڑھتی لاگت نے عوامی مشکلات میں اضافہ کر رکھا ہے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیزل کی قیمت میں کمی سے ٹرانسپورٹ اور زرعی شعبے پر کچھ حد تک ریلیف مل سکتا ہے کیونکہ ڈیزل براہ راست ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور زرعی مشینری کے استعمال سے جڑا ہوا ہے۔ تاہم پیٹرول کی قیمت برقرار رہنے سے عام شہریوں کو فوری طور پر ریلیف نہیں ملے گا۔
پاکستان میں ماضی میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی یا استحکام کا فیصلہ سیاسی اور معاشی حالات کے پیش نظر کیا جاتا رہا ہے۔ 2022 اور 2023 میں بھی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود مقامی سطح پر زیادہ ریلیف نہ ملنے پر عوامی سطح پر تنقید سامنے آتی رہی تھی۔
وزارت خزانہ کے مطابق نئی قیمتوں کا مقصد عوام کو عالمی منڈی کے اتار چڑھاؤ کے مطابق ریلیف فراہم کرنا ہے۔ تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ وقتی کمی کے بجائے توانائی کے متبادل ذرائع پر توجہ دینے اور روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے سے طویل المدتی ریلیف ممکن ہے۔
یکم ستمبر سے لاگو ہونے والی نئی قیمتوں کے ساتھ حکومت ایک بار پھر توانائی بحران اور مہنگائی کے دوہرے دباؤ میں عوام کو جزوی ریلیف دینے کی کوشش کر رہی ہے لیکن عام شہریوں کے لیے روزمرہ اخراجات پر اس کے اثرات محدود ہی رہنے کا امکان ہے۔