تحریر: عاطف شیرازی
۔۔۔
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے برصغیر پاک و ہند میں پٹوار خانے کا نظام سلطان عادل شیر شاہ سوری نے متعارف کرایا۔جی یہ وہی شیرشاہ سوری ہے جس کے حوالے سے روایت مشہور ہے کہ خوشاب کا نام اس نے رکھا( یعنی خوش اور آب) بعد ازاں مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں اس نظام کو وسعت دی گئ۔ برطانوی راج میں پٹواری کو ولیج اکاوننٹ کا درجہ دے کر اسے لینڈ ریکارڈ کی نقول فراہم کرنے کی اتھارٹی بھی دی گئ۔ اندھرا پردیش میں پٹواری کو کرانام اور اترپردیش میں پٹواری کو لیکھ پال ۔مدھیہ پردیش , پنجاب ,تیلنگانہ,ویسٹ بنگال میں ولیج اکاونٹنٹ کہلاتا ہے۔ پٹواری کا کام لینڈ ریکارڈ کودرست رکھنا ہے اس لیے ولیج ریکارڈ کیپر کے طور پر پٹواری کو جانا جاتا ہے کیونکہ سرکاری و نجی اراضی کا ریکارڈ کا ضامن پٹواری ہو تا ہے۔ پٹواری کی بنیادی ذمہ داری لینڈ ریکارڈ کو درست رکھنا ہوتا ہے لیکن پنجاب میں پولیس اور پٹوار کلچر نے ریکارڈ میں ہیر پھر کر کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر کے رکھ دی ہیں فیض احمد فیض جیسا عظیم شاعر بھی پٹواری کی مار دھاڑ سے محفوظ نہ رہ سکے ان کو بھی کہنا پڑ گیا اور جب ان کی کہیں شنوائی نہ ہوئی تو وہ خد ا سے شکوہ کناں ہوئے
کدی سار وی لئی اُو رب سائیاں
تیرے شاہ نال جگ کیہہ کیتیاں نیں
کِتھے دھونس پولیس سرکار دی اے
کِتھے دھاندلی مال پٹوار دی اے
اینویں وِچہ ہڈاں کلپے جان میری
جیویں پھاہی وِچہ کُونج کُرلاوندی اے
چنگا شاہ بنایا ای رب سائیاں
پولے کھاندیاں وار نئیں آؤندی اے
لینڈ ریکارڈ کے ضامنوں کی ہیرا پھیریوں کے باعث عظیم مزاحمتی شاعر فیض احمد فیض کی جان ہڈیوں میں کلپنے لگ گئ تھی لیکن ۔شیخ ابراہیم ذوق نے کہا تھا مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔خوشاب شہر میں ایک لینڈ ریکارڈ کلرک نےاڑھائی تین سو سالہ قدیم عبداللہ شاہ شیرازی قبرستان پہ قبضہ کر کے حکومت پنجاب کے کرپشن فری قبضہ فری پنجاب کے دعووں کی قلعی کھول کے رکھ دی۔ اس پر ضلعی انتظامیہ کی بے بسی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ۔ یہ اراضی بااثر لینڈ کلرک گردآور سابق پٹواری کے نہ ہی پردادا کو یاد آئی نہ ہی اسکے بدادا کو اور نہ ہی اس کے باپ کو یاد آئی راتوں رات اچانک قبرستان کی راہ گزر پہ قبضہ ہوگیا۔
قبضے کے بعد موصوف نے راتوں رات تعمیر شروع کر دی عوامی حلقوں اور لوگوں نے شور مچایا تو ضلعی انتظامیہ نے مشینری منگوا کر غیر قانونی تعمیرات گرا دی لیکن چونکہ پٹواری اتنا بااثر تھا کہ ضلعی انتظامیہ خوشاب کے آپریشن کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دوبارہ تعمیر شروع کر دی۔ اور اگے اشٹام پیپرز پہ اس کی فروخت شروع کر دی اب معلوم ہوا ہے کہ قبرستان کی اراضی پہ مارکیٹ بنانے کا اراد ہے۔محکمہ مال خوشاب کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ قبرستان سے ملحق اراضی رفاہ عامہ کے لیے ہے جس پر کسی فرد واحد کو قبضہ کا اختیار نہ ہے یہ لڑکیوں کے سکول یا کمیونٹی سنٹر کے لیے جگہ مختص ہے ۔سنا ہے کل اٹھائیس مئ کو ڈائریکٹر انٹی کرپشن کھلی کچہری لگا رہے ہیں وہ بھی اس معاملے کو دیکھیں اور ملوث اہلکاروں کو سزا دیں۔ایک اور رپورٹ میونسپل کمیٹی خوشاب کی جانب سے ایڈیشنل ڈپٹی ریونیو خوشاب کو ارسال کی گئ جس میں عبداللہ شاہ شیرازی قبرستان پہ قبضہ کی اطلاع دی گئ اور کہا گیا کہ قبرستان کی حدود میں گرد آور غیر قانونی قبضے کر رہا ہےانکروچمنٹ انسپکٹر کو تجاوزات سے روکنے کے لیے بھیجا مگر اسے ڈرا ڈھمکا کر قبضہ کرنے پہ بضد ہے۔ میونسپل کمیٹی کی رپورٹ اور محکمہ مال کی رپورٹ چیخ چیخ کر ضلعی انتظامیہ خوشاب کی بے بسی بتا رہی ہے کہ ایک نظام کس طرح پٹواری یا گردآور کے سامنے مفلوج ہو گیا ہے۔سی ایم پنجاب مریم نواز اگر پٹوار خانہ کلچر کو درست کرنا چاہتی ہیں تو اس غیر قانونی قبضہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں۔ ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائ کریں ضلع بدر کریں۔ محکمہ مال اور بلدیہ خوشاب کی رپورٹ اور انتظامیہ کی بے بسی سے وہ واقعہ یاد آرہا ہے جب قدرت اللہ شہاب ڈی سی جھنگ تھے تو ایک بڑھیا شکایت لے کر آگئی کہ اس کی اراضی پہ قبضہ ہوگیا ہے پٹواری ساتھ ملا ہوا ہے فرد ملکیت نہیں دے رہا۔ ڈپٹی کمشنر نے نوٹس لیا اور قبضہ چھڑوا دیا تو بڑھیا نے بھولپن میں دعا دی جا بیٹا اللہ تجھے بھی پٹواری بنائے۔ جناب رانا ذیشان شبیر ڈی سی خوشاب یہ قبضہ بڑھیا کی زمین پہ نہیں اللہ والے کی زمین پہ ہو رہا ہے ڈریں پتہ نہیں ہمیں دو گز زمیں بھی نصیب ہو گی یا نہیں