
جامشورو پاور پلانٹ اور دو ایل این جی سے چلنے والے منصوبے دوبارہ نجکاری پروگرام کا حصہ بن گئے، حکومت کا کہنا ہے کہ توانائی شعبے کی مالی مشکلات کم کرنے کے لیے یہ اقدام ناگزیر ہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی نے کہا کہ یہ پاور پلانٹس ماضی میں مختلف وجوہات کے باعث فہرست سے نکالے گئے تھے، تاہم اب ان کی نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔ وہ اسلام آباد میں بجلی کمپنیوں کی نجکاری سے متعلق مشاورتی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے، جہاں دس تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کی ممکنہ نجکاری پر بھی غور کیا گیا۔
مشیر نجکاری کے مطابق بجلی کے شعبے کو سالانہ تقریباً 1.2 ٹریلین روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے، جو قیمتوں کے فرق، گردشی قرضوں کی ادائیگی اور لائن لاسز کے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری نہ کی گئی تو سرکاری مالیاتی بوجھ مزید بڑھ جائے گا اور معیشت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ حکومت کارکردگی میں بہتری کے لیے نجکاری کو ترجیح دے رہی ہے، تاہم یکساں ٹیرف اور سبسڈی جیسے پالیسی اقدامات برقرار رہیں گے۔ مالی مشیر نے وضاحت کی کہ یکساں ٹیرف پالیسی سماجی و اقتصادی ضرورت ہے، جس کے تحت کم کارکردگی والے علاقوں کے صارفین بھی وہی نرخ ادا کرتے ہیں جو زیادہ مؤثر کمپنیوں پر لاگو ہیں۔ اس نظام کے نتیجے میں پنجاب کے صارفین بالواسطہ طور پر سندھ اور بلوچستان کے صارفین کو سبسڈی فراہم کر رہے ہیں۔
نجکاری کمیشن نے ابتدائی طور پر اسلام آباد (IESCO)، فیصل آباد (FESCO) اور گوجرانوالہ (GEPCO) الیکٹرک سپلائی کمپنیوں کی نجکاری کے لیے بین الاقوامی مالیاتی مشیر کمپنی “ایلویریس اینڈ مارسال” کو تعینات کیا ہے۔ محمد علی کے مطابق ابتدائی مارکیٹ تجزیہ مکمل کر لیا گیا ہے، ٹرانزیکشن اسٹرکچر کو حتمی شکل دی جا رہی ہے، اور آئندہ ہفتوں میں نجی سرمایہ کاروں سے اظہارِ دلچسپی کی درخواستیں طلب کی جائیں گی۔
توانائی شعبے کے ماہرین کے مطابق حکومت کا نجکاری پروگرام عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی اصلاحاتی شرائط کے مطابق ہے، جس کا مقصد گردشی قرضے میں کمی، مالیاتی نظم و ضبط اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی میں بہتری لانا ہے۔ محمد علی نے کہا کہ بجلی کے شعبے میں مؤثر نجکاری سے پاکستان کے توانائی بحران کے بوجھ میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔
UrduLead UrduLead