طورخم، غلام خان، خرلاچی، انگور اڈہ اور چمن بارڈر پر درآمدات و برآمدات رک گئیں، سینکڑوں گاڑیاں پھنس گئیں

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان کی جانب سے بلااشتعال جارحیت کے بعد پاکستان کے پانچ بڑے کسٹمز بارڈر اسٹیشنز پر کسٹمز کلیئرنس کا عمل 12 اکتوبر 2025 سے معطل کر دیا گیا ہے۔ ان اسٹیشنز میں طورخم، غلام خان، خرلاچی، انگور اڈہ اور چمن شامل ہیں، جہاں درآمدات، برآمدات اور ٹرانزٹ ٹریڈ مکمل طور پر رک چکی ہے۔
ایف بی آر کے ترجمان کے مطابق، سرحدی تناؤ کے باعث کسٹمز عملے کی سیکیورٹی کو شدید خطرات لاحق ہو گئے تھے، جس کے پیش نظر بیشتر افسران اور انسپکٹرز کو عارضی طور پر ہیڈکوارٹرز میں رپورٹ کرنے کی ہدایت دی گئی۔ تاہم، ہر اسٹیشن پر محدود عملہ بدستور موجود ہے تاکہ حالات معمول پر آتے ہی تجارتی سرگرمیوں کا عمل فوری طور پر بحال کیا جا سکے۔
ترجمان کے مطابق، شمالی ریجن کے کلکٹوریٹس نے اُن درآمدی کھیپوں (consignments) کو کلیئر کر دیا ہے جو سرحد بند ہونے سے پہلے اسٹیشنز پر پہنچ چکی تھیں۔ اس اقدام کا مقصد تجارتی نقصان میں کمی لانا اور ضروری اشیائے صرف کی ممکنہ قلت سے بچاؤ ہے۔ ایف بی آر کے مطابق، شمالی ریجن آف اپریزمنٹ کے دائرہ اختیار میں آنے والے بارڈر اسٹیشنز—طورخم، غلام خان، خرلاچی اور انگور اڈہ—پر مجموعی طور پر 363 درآمدی گاڑیوں کے گڈز ڈیکلریشن (Goods Declaration) جمع ہونے کے بعد انہیں کلیئر کر دیا گیا۔
اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت طورخم بارڈر اسٹیشن، جو سب سے زیادہ کارگو ہینڈل کرتا ہے، پر تقریباً 255 برآمدی گاڑیاں اور 24 درآمدی گاڑیاں ٹرمینل پر موجود ہیں، جب کہ مزید 200 گاڑیاں جمرود-لنڈی کوتل روڈ پر پھنسی ہوئی ہیں۔ ان گاڑیوں میں سیمنٹ، خوراک، ادویات، کپڑا اور دیگر اشیاء شامل ہیں جو افغانستان کی منڈیوں کے لیے روانہ ہونی تھیں۔
دوسری جانب، چمن بارڈر کسٹمز اسٹیشن پر بھی 15 اکتوبر سے کلیئرنس کا عمل مکمل طور پر بند ہے۔ ایف بی آر کے مطابق، آج کی تاریخ تک 5 درآمدی اور 25 برآمدی گاڑیوں کی کلیئرنس زیر التواء ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ کچھ درآمد کنندگان اور برآمد کنندگان اس صورتحال میں گڈز ڈیکلریشن (GD) جمع کرانے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ سرحدی صورتحال جلد بحال نہ ہونے کی صورت میں سامان مزید تاخیر کا شکار ہوگا۔
ایف بی آر کے مطابق، درآمدی و برآمدی گاڑیوں کے علاوہ ٹرانزٹ ٹریڈ کارگو لے کر جانے والی تقریباً 500 گاڑیاں بھی طورخم اور چمن کے مقام پر سرحد عبور کرنے کی منتظر ہیں۔ ان گاڑیوں میں وسطی ایشیائی ممالک کے لیے سامانِ تجارت شامل ہے، جو اس تعطل کے باعث پھنس چکا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کی جانب سے فائرنگ اور سرحدی خلاف ورزیوں کے بعد سیکیورٹی فورسز نے بارڈر ایریاز میں تعیناتی بڑھا دی ہے اور صورتحال کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس وقت بارڈر ایریاز میں سیکیورٹی فورسز اور کسٹمز حکام کے درمیان قریبی رابطہ موجود ہے تاکہ حالات بہتر ہوتے ہی تجارتی سرگرمیاں بحال کی جا سکیں۔
ایف بی آر کے مطابق، کسٹمز کلیئرنس کی معطلی عارضی ہے، تاہم اس کے معاشی اثرات نمایاں ہیں۔ برآمدی تاخیر کے باعث افغانستان کے ساتھ تجارت کرنے والے کاروباری طبقے کو نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ درآمدی اشیاء کی تاخیر سے ملک کے اندرونی منڈیوں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
تجارت سے وابستہ تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاک افغان سرحدوں پر کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے فوری سفارتی اقدامات کیے جائیں تاکہ بارڈر ٹریڈ دوبارہ شروع ہو سکے۔ آل پاکستان کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن کے مطابق، موجودہ صورتحال سے یومیہ لاکھوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور اگر کلیئرنس مزید کچھ روز معطل رہی تو برآمدی شیڈول متاثر ہو جائے گا۔
ایف بی آر حکام نے واضح کیا ہے کہ حالات معمول پر آتے ہی تمام بارڈر اسٹیشنز پر کلیئرنس کا عمل فوری طور پر بحال کر دیا جائے گا۔ فی الحال محدود عملہ سرحدی اسٹیشنز پر موجود ہے جو ٹرمینل پر کھڑی گاڑیوں اور سامان کی سیکیورٹی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ آئندہ بحالی کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
ذرائع کے مطابق، وزارتِ خزانہ اور وزارتِ تجارت کو اس صورتِ حال پر باضابطہ بریفنگ دی گئی ہے، جبکہ ایف بی آر نے اپنی فیلڈ فارمیشنز کو ہدایت دی ہے کہ تجارت میں ممکنہ رکاوٹوں کے اثرات کم کرنے کے لیے متبادل انتظامات پر غور کریں۔
افغان سرحدوں کی بندش سے قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان یومیہ تقریباً 1,200 سے زائد ٹرک آمدورفت کرتے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ تعطل طویل ہوا تو دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت میں 20 سے 25 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔
ایف بی آر نے امید ظاہر کی ہے کہ سیکیورٹی کی بہتری اور بین الحکومتی رابطوں کے نتیجے میں آئندہ دنوں میں کسٹمز کلیئرنس کا عمل دوبارہ معمول پر آ جائے گا، تاکہ بارڈر ٹریڈ اور قومی ریونیو پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔