چمن، طورخم اور وزیرستان میں تجارتی سرگرمیاں معطل، ہزاروں مسافر پھنس گئے

پاک افغان کشیدگی کے باعث چمن میں بابِ دوستی، خیبر میں طورخم بارڈر، جنوبی و شمالی وزیرستان اور ضلع کرم کے سرحدی راستے مسلسل گیارہویں روز بھی مکمل طور پر بند ہیں، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت، آمدورفت اور مقامی معیشت بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ سرحدی راستوں کی بندش نے نہ صرف تجارتی قافلوں کو روک رکھا ہے بلکہ سینکڑوں مزدوروں کو بھی روزگار سے محروم کر دیا ہے جو روزانہ افغانستان جاکر کام کرتے تھے۔
چمن اور طورخم میں مال بردار گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں جن میں سیمنٹ، ادویات، کپڑا، تازہ پھل اور سبزیوں سمیت کروڑوں روپے کا سامان پھنسا ہوا ہے۔ ٹرک ڈرائیوروں اور تاجر برادری کے مطابق، سرحد بند ہونے سے اشیائے خورونوش کی رسد متاثر ہوئی ہے جس کے باعث مقامی منڈیوں میں قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ چمن، قلعہ عبداللہ، طورخم اور پاراچنار کے بازاروں میں سبزی، پھل اور روزمرہ اشیاء کی قیمتیں عام شہریوں کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔
چمن میں کسٹم حکام کے مطابق بابِ دوستی ہر قسم کی تجارتی سرگرمی اور ویزا پاسپورٹ ٹریولنگ کے لیے بدستور بند ہے۔ اس تعطل کے باعث دونوں اطراف ہزاروں مسافر پھنسے ہوئے ہیں، جن میں بچے، خواتین اور بزرگ شہری بھی شامل ہیں۔ حکام کے مطابق صرف چمن میں پانچ ہزار سے زائد پاکستانی شہری افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں جو اپنی واپسی کے منتظر ہیں، جبکہ اسی طرح افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد بھی پاکستانی حدود میں رکی ہوئی ہے۔
تجارتی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر پاک افغان سرحدی تنازع کو سفارتی سطح پر حل کیا جائے تاکہ تجارت کا پہیہ دوبارہ چل سکے۔ چمن چیمبر آف کامرس کے نمائندے کے مطابق، روزانہ کروڑوں روپے کی تجارت متاثر ہو رہی ہے، اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو مقامی تاجر شدید مالی بحران کا شکار ہو جائیں گے۔
دوسری جانب، افغانستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے باعث باہمی تعلقات پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، سرحدی تنازع کا آغاز اُس وقت ہوا جب افغان حکام نے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں پر الزام لگایا کہ انہوں نے بغیر پیشگی اطلاع کے باڑ کی مرمت شروع کی، جس پر افغان سائیڈ سے ردِعمل آیا۔ تاہم، پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ تمام سرگرمیاں اپنی حدود کے اندر انجام دی جا رہی ہیں اور کسی اشتعال انگیزی کا ارادہ نہیں تھا۔
سرحدی گزرگاہوں کی بندش سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے وہ مزدور ہیں جو روزانہ طورخم یا چمن سے افغانستان جا کر روزی کماتے تھے۔ اب یہ مزدور نہ صرف آمدنی سے محروم ہیں بلکہ ان کے اہلِ خانہ بھی مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ بعض مزدوروں نے شکایت کی ہے کہ حکومت نے ابھی تک ان کے لیے کوئی متبادل روزگار یا امدادی منصوبہ فراہم نہیں کیا۔
چمن کے مقامی سماجی رہنماوں نے بتایا کہ سرحد کی بندش سے علاقے میں بے روزگاری، مہنگائی اور انسانی بحران کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ انہوں نے حکومتِ پاکستان سے اپیل کی ہے کہ فوری طور پر مذاکرات کے ذریعے بابِ دوستی کو کھولا جائے تاکہ روزمرہ زندگی معمول پر آسکے۔
ادھر افغان میڈیا کے مطابق کابل حکومت نے بھی اسلام آباد سے مذاکرات کی خواہش ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ سرحدی مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ تاہم تاحال کسی باضابطہ ملاقات یا معاہدے کی اطلاع نہیں ملی۔
سرحدوں کی بندش کے سبب جہاں تجارت معطل ہے، وہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی سرگرمیاں بھی رک گئی ہیں۔ طبی سامان اور غذائی اجناس کی ترسیل نہ ہونے سے سرحدی دیہاتوں میں کمی پیدا ہو رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ تعطل مزید طویل ہوا تو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی خسارہ اور غذائی بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔
چمن، طورخم اور وزیرستان کے مقامی مکینوں نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت پاکستان اور افغانستان جلد از جلد کشیدگی کم کرنے کے اقدامات کریں گی تاکہ سرحدی زندگی دوبارہ معمول پر آسکے اور عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
UrduLead UrduLead