جمعرات , اکتوبر 23 2025

پاکستان میں سالانہ 9 ارب ڈالرآن لائن فراڈ: رپورٹ

گلوبل اسٹیٹ آف اسکیمرز 2025 کے مطابق یہ نقصان پاکستان کی جی ڈی پی کا 2.5 فیصد ہے، جبکہ دنیا کی کم ازکم 57 فیصد آبادی کسی نہ کسی ڈیجیٹل فراڈ سے متاثر ہو چکی ہے

گلوبل اسٹیٹ آف اسکیمرز (Scams) 2025 کی نئی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آن لائن فراڈ کا سالانہ مالی نقصان 9 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے، جو ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 2.5 فیصد بنتا ہے، اور ماہرین کے نزدیک یہ رجحان مصنوعی ذہانت کے پھیلاؤ کے ساتھ مزید پیچیدہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ عالمی سطح پر 42 ممالک کے 46 ہزار افراد کے سروے کی بنیاد پر اب تک دنیا بھر میں 442 ارب ڈالر ڈیجیٹل جعل سازی کے ذریعے لوٹے جا چکے ہیں، جبکہ گرفتاری کی شرح محض 0.05 فیصد بتائی جاتی ہے. رپورٹ کے اندازوں کے مطابق دنیا کی آبادی کا کم ازکم 57 فیصد زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر ڈیجیٹل فراڈ کا شکار ہوا ہے۔

پاکستان میں مالیاتی اور غیر مالیاتی نوعیت کے فراڈ تیزی سے بدلتے ہتھکنڈوں کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے سائبر رسک مینجمنٹ ونگ کے ایک سینئر عہدیدار ریحان مسعود کے مطابق پیپرلیس مارکیٹ یقیناً سیکیورٹی رسک ہے مگر جب تک صارف اپنی معلومات—بالخصوص اے ٹی ایم پن، پاس ورڈ یا او ٹی پی—خود نہ بتائے، فراڈ مکمل نہیں ہو سکتا۔ ان کے مطابق مرکزی بینک نے کمرشل بینکوں کو ہدایت دے رکھی ہے کہ صارفین کی سائبر سیکیورٹی ہر حال میں یقینی بنائی جائے اور خلاف ورزی پر سخت کارروائی ہو۔

رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اے آئی ٹولز، وائس کلوننگ اور چہرہ سازی کی ٹیکنالوجیز نے اسکیمرز کی رسائی اور اثر انگیزی بڑھا دی ہے۔ اب محض جعلی ایس ایم ایس یا ای میل کے بجائے کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کی مشابہ آواز میں مالی مدد، اے ٹی ایم پن یا او ٹی پی مانگنے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ نجی ڈیٹا کی ہیکنگ کے بعد اسی معلومات سے بینکنگ ایپس اور دیگر اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کی جاتی ہے، جس سے صارفین کو مالی نقصانات کے ساتھ ذہنی اذیت بھی اٹھانا پڑتی ہے۔

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے مطابق پاکستان میں آن لائن جرائم کی تفتیش پیکا ایکٹ 2016 کے تحت کی جاتی ہے اور جرائم کی فہرست میں مالی فراڈ، فیشنگ، سوشل میڈیا ہیکنگ، فیک آئی ڈیز، بلیک میلنگ، ڈیٹا تھیفٹ، کارڈ اسکمنگ اور آن لائن سرمایہ کاری اسکیمیں نمایاں ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ شہری کسی بھی واقعے کی صورت میں ویب پورٹل complaint.nccia.gov.pk پر درخواست دیں، [email protected] پر ای میل کریں یا 1799 ہیلپ لائن پر رابطہ کریں، جبکہ قریبی سائبر کرائم رپورٹنگ سنٹر میں براہِ راست شکایت بھی درج کرائی جا سکتی ہے۔

پاکستانی صارفین کی حقیقی کہانیوں میں فیشنگ کالز، بینک بن کر معلومات مانگنا، معروف شخصیات کے ہیک شدہ اکاؤنٹس سے ادھار یا ٹرانسفر کی درخواستیں اور جعلی منی گرام واؤچرز شامل ہیں۔ ایک ریٹائرڈ خاتون نے بتایا کہ بینک افسر بن کر کال آئی اور اے ٹی ایم بلاک ہونے کا بہانہ بنا کر تمام حساس معلومات مانگی گئیں؛ گھر والوں کی بروقت مداخلت سے مالی نقصان ٹل گیا۔ اسی طرح، ایک صحافی کو ایک جج کے نام سے واٹس ایپ میسج آیا کہ مقررہ اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کی جائے؛ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اکاؤنٹ اور نمبر ہیک تھے۔ ایسے کئی واقعات میں مشترکہ بات یہ رہی کہ اسکیمرز نے جلدی، خوف یا ہمدردی پیدا کر کے صارف سے خود اُس کی حساس معلومات حاصل کیں۔

قانون نافذ کرنے والے افسران کے مطابق ہنی ٹریپ اور نوکریوں کے جعلی اشتہارات کے ذریعے بھی شہریوں کو جال میں پھنسایا جاتا ہے۔ بعض گروہ ملاقات کے بہانے بلا کر اغوا اور بھتہ خوری تک پہنچ جاتے ہیں۔ ای کامرس پلیٹ فارمز پر ریموٹ ورک اور پارٹ ٹائم جاب کے لالچ میں ایڈوانس فیس، رجسٹریشن یا “ویری فکیشن” کے نام پر رقم نکلوا لی جاتی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اپنے شناختی کارڈ کی کاپی، سم رجسٹریشن، غیر ضروری ایپس کو حساس اجازتیں دینا اور نامعلوم یو آر ایل پر کلک کرنا ڈیٹا لیک کا بنیادی راستہ بنتا ہے، مگر آخری مرحلے پر اکثر نقصان اسی وقت ہوتا ہے جب صارف او ٹی پی یا پن شیئر کر دیتا ہے۔

بینکاری شعبہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ بینک کبھی فون، ایس ایم ایس یا ای میل پر پن، پاس ورڈ یا او ٹی پی نہیں مانگتے۔ چند کیسز میں جب بین الاقوامی سطح پر کارڈ ڈیٹا چوری ہو اور صارف کی جانب سے لاپرواہی ثابت نہ ہو تو بینک چارج بیک کے ذریعے نقصان پورا بھی کرتے ہیں، تاہم گھریلو فیشنگ یا او ٹی پی شیئرنگ کے واقعات میں ذمہ داری صارف پر عائد ہو سکتی ہے۔ صارفین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ تمام اہم اکاؤنٹس پر ٹو فیکٹر اوتھنٹیکیشن فعال کریں، 12 سے 16 حروف پر مشتمل منفرد اور مشکل پاس ورڈ رکھیں، سافٹ ویئر اور موبائل او ایس اپڈیٹ رکھیں، اور نامعلوم پیغامات کے لنک یا اٹیچمنٹ (خصوصاً ZIP/PDF/EXE) نہ کھولیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آن لائن فراڈ کی جغرافیائی حدبندی مشکل ضرور ہے مگر آبادی والے علاقوں میں واقعات کی کثافت زیادہ نظر آتی ہے۔ غیر سرکاری اندازوں میں پنجاب کے بعض اضلاع—سرگودھا، خوشاب، خانیوال، شیخوپورہ، قصور—میں گروہی سرگرمیوں کی نشان دہی ہوتی رہی ہے [verify]۔ ایف آئی اے حکام تسلیم کرتے ہیں کہ وسائل اور عملے کی کمی کے باعث ہر شکایت پر فوری پیش رفت ممکن نہیں رہتی، مگر محکمہ وقائع کے حجم کے مطابق اپنی گنجائش بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بعض شکایت کنندگان نے کیس نمبر یا پیش رفت نہ ملنے پر عدم اطمینان ظاہر کیا، جس سے یہ ضرورت اجاگر ہوتی ہے کہ رپورٹنگ اور ٹریکنگ کا نظام مزید شفاف بنایا جائے۔

رپورٹ میں اے آئی کے بڑھتے استعمال کو “بہ قائمہ خطرہ” قرار دیا گیا ہے۔ وائس اور ویڈیو کلوننگ کا مطلب ہے کہ محفوظ شناخت اب صرف چہرہ یا آواز نہیں رہی۔ کسی قریبی شخص کی نقل شدہ آواز میں فوری مالی مدد کی درخواست، یا خودکار “بینک افسر” کی کال کے ذریعے او ٹی پی مانگنا، نئے دور کے عام حربے ہیں۔ سائبر سیکیورٹی ماہرین کہتے ہیں کہ خاندان کے اندر “سیکرٹ ورڈ” یا تصدیقی سوال طے کر لینا، اور حساس لین دین سے قبل آڈیو کال کے بجائے ویڈیو یا براہِ راست رابطہ کرنا، رسک کم کر سکتا ہے۔ اسی طرح غیر معمولی رقم نکلنے کی صورت میں بینک/والٹ میں فوری ہولڈ یا کِل سوئچ کی درخواست دینا کئی کیسز میں رقوم بچا لیتا ہے؛ اسٹیٹ بینک کی ہدایات کے مطابق بعض فوری منتقلیاں محدود وقفے تک روکی جا سکتی ہیں، مگر اس کے لیے فوری اطلاع دینا لازمی ہے۔

تجزیہ کاروں کے نزدیک 9 ارب ڈالر سالانہ نقصان پاکستانی معیشت کے لیے تشویشناک ہے کیونکہ یہ صرف براہِ راست رقوم کی چوری نہیں، بلکہ اعتماد میں کمی، ڈیجیٹل ادائیگیوں کی رفتار سست ہونے اور کاروباری لاگت بڑھنے کی شکل میں بالواسطہ نقصانات بھی جنم دیتا ہے۔ آن لائن فراڈ کی بلند سطح چھوٹے کاروباروں، اسٹارٹ اپس اور ای کامرس کے پھیلاؤ پر بریک لگاتی ہے، جبکہ ریاستی اداروں پر تفتیشی دباؤ بڑھاتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بہتر قانون نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ مالی اداروں، ٹیلی کام کمپنیوں اور پلیٹ فارمز کے مابین “ریئل ٹائم” معلوماتی اشتراک، اور قومی سطح پر آگاہی مہم ہی اس چیلنج کا پائیدار جواب ہے۔

گلوبل اسٹیٹ آف اسکیمرز کی رپورٹ کی روشنی میں پالیسی سازوں کے سامنے تین فوری ترجیحات ابھرتی ہیں: اوّل، شکایات کے اندراج، ٹریکنگ اور تفتیش کے لیے ایک متحدہ پورٹل جس پر تمام اداروں کی رسائی اور جواب دہی ہو؛ دوم، تعلیمی نصاب اور سرکاری مہمات میں ڈیجیٹل لٹریسی—بالخصوص او ٹی پی/پن شیئرنگ کی ممانعت—کو لازمی جزو بنانا؛ سوم، اے آئی سے جڑے جرائم کے لیے جدید فرانزک صلاحیت اور ضابطہ کار۔ اس کے بغیر نہ صرف مالی نقصان بڑھے گا بلکہ ترقی پذیر ڈیجیٹل معیشت میں عوامی اعتماد بھی مجروح ہوگا۔

آخر میں ماہرین اور ریگولیٹرز ایک ہی بات دہراتے ہیں: “احتیاط پہلی دفاعی دیوار ہے۔” کسی نامعلوم میسج، کال یا لنک پر فوری ردعمل دینے کے بجائے تسلی، تصدیق اور تاخیر اختیار کریں؛ بینک کبھی فون پر او ٹی پی یا پن نہیں مانگتے؛ قرعہ اندازی میں انعام اسی وقت نکلتا ہے جب آپ نے شرکت کی ہو؛ اور جو پارسل آپ نے منگوایا ہی نہیں اس کی “کیش آن ڈیلیوری” وصولی سے پہلے دو بار سوچیں۔ اگر پاکستان کو آن لائن فراڈ میں 9 ارب ڈالر سالانہ نقصان کم کرنا ہے تو ریاست، اداروں اور شہریوں—سب کو مل کر “آگاہی، احتیاط اور رپورٹنگ” کے اصول پر چلنا ہوگا، کیونکہ آن لائن فراڈ کے خلاف دیرپا کامیابی کا واحد راستہ یہی ہے کہ آن لائن فراڈ کی بُنیاد—یعنی انسانی غلطی اور جلد بازی—کو کم سے کم کیا جائے۔

About Aftab Ahmed

Check Also

وزیراعظم لیپ ٹاپ اسکیم کے تحت 30 اکتوبر سے تقسیم کا آغاز

ایک لاکھ ہونہار طلبہ کو مفت لیپ ٹاپ ملیں گے، مرکزی تقریب اسلام آباد میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے