ملک بھر کے اسپتالوں میں موسمی وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے دو ہفتے حساس ہیں

موسمِ خزاں کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان کے مختلف شہروں میں نزلہ، زکام، بخار اور فلو کے مریضوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ طبی ماہرین نے شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگلے دو ہفتے موسمی بیماریوں کے پھیلاؤ کے لحاظ سے نہایت اہم ہیں۔
محکمۂ صحت کے مطابق گزشتہ دس دنوں میں صرف بڑے شہروں — لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پشاور — میں انفلوئنزا، سانس کی بیماریوں اور وائرل بخار کے 30 فیصد زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اسپتالوں کے او پی ڈیز میں روزانہ سینکڑوں مریض کھانسی، گلے کی خراش، جسم درد اور بخار کی شکایت لے کر پہنچ رہے ہیں۔
ماہرِ امراضِ متعدیہ ڈاکٹر فیصل محمود کا کہنا ہے کہ “موسم میں نمی اور درجہ حرارت کی کمی وائرس کے پھیلاؤ کے لیے سازگار ماحول پیدا کر رہی ہے، اس لیے بچوں، بزرگوں اور کمزور قوتِ مدافعت رکھنے والے افراد کو خاص طور پر احتیاط کرنی چاہیے۔”
انہوں نے مشورہ دیا کہ شہری زیادہ پانی پئیں، کھلی فضا میں وقت گزارنے سے پرہیز کریں، ماسک کا استعمال جاری رکھیں اور ہجوم والی جگہوں پر جانے سے گریز کریں۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA) نے بھی ایک مشاورتی بیان میں کہا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں “موسمی فلو وائرس (Influenza A & B)” کے کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، تاہم زیادہ تر مریض گھریلو علاج سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، فلو کی ویکسین لینا اور مناسب آرام کرنا بیماری کی شدت کو کم کر سکتا ہے۔
کراچی کے جناح اسپتال کی ایک رپورٹ کے مطابق، نزلہ و زکام کے مریضوں میں 40 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ لاہور کے میو اسپتال میں روزانہ تقریباً 600 مریض فلو یا بخار کے لیے رجوع کر رہے ہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے اسپتالوں میں بھی یہی رجحان دیکھا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ ملک، ماہر امراضِ ناک، کان، گلا (ENT Specialist) کے مطابق، “بہت سے مریض خود سے اینٹی بائیوٹکس لینا شروع کر دیتے ہیں، جو نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ صحت کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔” ان کا کہنا ہے کہ وائرل انفیکشن میں اینٹی بائیوٹکس مددگار نہیں ہوتیں، بلکہ صرف آرام، بخار کم کرنے کی دوائیں اور متوازن خوراک ہی مؤثر علاج ہیں۔
ماہرینِ صحت نے خبردار کیا ہے کہ فلو یا بخار کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے، کیونکہ یہ سانس کی نالی کے انفیکشن، برونکائٹس اور نمونیا جیسی پیچیدگیوں میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے، خصوصاً بزرگ شہریوں یا دمہ کے مریضوں میں۔
عوام کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اسکول جانے والے بچوں کو صبح کے وقت گرم لباس پہنائیں، اور اگر کسی بچے یا فرد کو بخار یا کھانسی ہو تو اسے گھر پر آرام کا مشورہ دیا جائے تاکہ بیماری کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔
ڈاکٹرز نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسپتالوں میں فلو ویکسین کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم تیز کی جائے تاکہ لوگ حفاظتی اقدامات پر عمل کریں۔
قومی ادارہ برائے صحت (NIH) نے بھی ایک ایڈوائزری جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شہری اپنے مدافعتی نظام کو مضبوط رکھنے کے لیے متوازن غذا، وٹامن سی سے بھرپور پھل اور سبزیاں استعمال کریں، جبکہ پانی کا زیادہ استعمال کریں تاکہ جسم میں ڈی ہائیڈریشن نہ ہو۔
اگرچہ ماہرین کے مطابق موجودہ صورتحال قابو میں ہے، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اگر موسم مزید ٹھنڈا ہوا تو نومبر کے آغاز میں مریضوں کی تعداد میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ وزارتِ صحت نے تمام صوبائی محکموں کو الرٹ جاری کر دیا ہے تاکہ اسپتالوں میں اضافی سہولیات اور دواؤں کا ذخیرہ یقینی بنایا جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عوام احتیاطی تدابیر پر عمل کریں تو یہ موسمی لہر معمولی سطح پر رہ سکتی ہے، بصورتِ دیگر اسپتالوں پر دباؤ بڑھنے کا خدشہ موجود ہے۔