
لندن: برطانیہ میں سخت تر امیگریشن قواعد اور ویزا کے مبینہ غلط استعمال پر بڑھتی ہوئی تشویش کے بعد کئی یونیورسٹیوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش سے طلبہ کے داخلے عارضی طور پر معطل یا محدود کر دیے ہیں۔
برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق کم از کم 9 اعلیٰ تعلیمی اداروں نے دونوں ممالک کو ’ہائی رسک‘ کیٹیگری میں شامل کرتے ہوئے اپنی داخلہ پالیسیوں کو تبدیل کیا ہے، تاکہ وہ بین الاقوامی طلبہ کی اسپانسرشپ کے قواعد کی پابندی برقرار رکھ سکیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب بین الاقوامی طلبہ کی جانب سے پناہ کی درخواستوں میں اضافہ ہوا ہے، جس پر برطانوی وزرا نے تنبیہ کی تھی کہ اسٹڈی ویزا کو ’آبادکاری کے پچھلے دروازے‘ کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔
کن یونیورسٹیوں نے کیا اقدامات کیے؟
- یونیورسٹی آف چیسٹر نے ’ویزوں کے انکار میں غیر معمولی اضافے‘ کے باعث پاکستان سے داخلے 2026 کی خزاں تک معطل کر دیے ہیں۔
- یونیورسٹی آف وولورہیمپٹن نے پاکستان اور بنگلہ دیش، دونوں ممالک سے انڈرگریجویٹ داخلے روک دیے۔
- یونیورسٹی آف ایسٹ لندن نے بھی پاکستان سے بھرتیاں مکمل طور پر بند کر دی ہیں۔
دیگر اداروں میں سنڈر لینڈ، کوونٹری، ہرٹفورڈ شائر، آکسفورڈ بروکس، گلاسگو کیلیڈونین اور بی پی پی یونیورسٹی شامل ہیں، جنہوں نے رسک مینیجمنٹ کے تحت دونوں ممالک کے طلبہ کے داخلے کم یا معطل کیے ہیں۔
پس منظر کیا ہے؟
یہ اقدامات اس وقت سامنے آئے ہیں جب برطانوی حکومت نے ستمبر 2025 میں نیا ریگولیٹری اصول نافذ کیا، جس کے تحت بین الاقوامی طلبہ کو اسپانسر کرنے والے اداروں کے لیے ویزہ انکار کی قابلِ اجازت شرح 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دی گئی ہے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ کی ویزا ریجیکشن ریٹ بالترتیب 18 فیصد اور 22 فیصد ہے، جو نئی حد سے کہیں زیادہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ستمبر 2025 تک ایک سال میں ہوم آفس نے 23 ہزار سے زائد اسٹڈی ویزا انکار کیے، جن میں تقریباً نصف درخواستیں پاکستان اور بنگلہ دیش سے تھیں۔
پناہ کی درخواستوں میں بھی اضافہ
ان دونوں ممالک سے پناہ کی درخواستوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، جن میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو پہلے اسٹڈی یا ورک ویزا پر برطانیہ آئے تھے۔
ماہرین اور ایجنٹس کا ردعمل
بین الاقوامی اعلیٰ تعلیم کے مشیر وِنچینزو رائمو کے مطابق نئی پالیسیوں نے خاص طور پر ان کم فیس والی یونیورسٹیوں کے لیے مسائل پیدا کر دیے ہیں جو بیرونی طلبہ پر انحصار کرتی ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ چند خراب کیسز بھی اداروں کی اسپانسرشپ اہلیت کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
لاہور میں تعلیمی مشیر مریم عباس نے اس فیصلے کو ’’دل توڑ دینے والا‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حقیقی طلبہ کی درخواستیں بھی آخری مراحل میں مسترد ہو رہی ہیں۔
انہوں نے تعلیمی ایجنٹس کی کمزور نگرانی کو اسٹڈی ویزا کے غلط استعمال کی بنیادی وجہ قرار دیا۔
یونیورسٹیز یوکے انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ کئی اداروں کو اسپانسرشپ برقرار رکھنے کے لیے داخلوں میں تنوع لانے اور درخواستوں کی چھان بین مزید سخت کرنے کی ضرورت ہوگی۔
UrduLead UrduLead