ایڈورڈز کالج کا کنٹرول تنازع شدت اختیار کر گیا، گورنر اور خیبرپختونخوا حکومت آمنے سامنے
گورنر کی جانب سے پرنسپل کی تقرری، صوبائی کابینہ کی جانب سے کالج کو تحویل میں لینے کے فیصلے سے 125 سالہ تاریخی ادارہ انتظامی بحران کا شکار

خیبرپختونخوا کی حکومت اور گورنر کے مابین ایڈورڈز کالج پشاور کے انتظامی کنٹرول پر اختلافات خطرناک حد تک شدت اختیار کر گئے ہیں۔ 125 سالہ قدیم تعلیمی ادارے کی پرنسپل کی تقرری پر شروع ہونے والا تنازع اب آئینی اختیار، تاریخی تشخص، اور قانونی بالادستی کے سوالات کو جنم دے رہا ہے، جس سے کالج کا تعلیمی معیار شدید متاثر ہو رہا ہے۔
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے حالیہ دنوں ڈاکٹر یعقوب بنگش کو ایڈورڈز کالج کا مستقل پرنسپل تعینات کرنے کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جس کے مطابق یہ فیصلہ بورڈ آف گورنرز کی 30 اپریل 2025 کو متفقہ منظوری کے بعد کیا گیا۔ گورنر کے مطابق یہ اقدام نہ صرف آئینی اور قانونی ہے بلکہ مئی 2024 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح فیصلے کے مطابق ہے، جس نے بورڈ آف گورنرز کو ادارے کا واحد مجاز منتظم قرار دیا تھا۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کی صوبائی کابینہ نے کالج کو صوبائی تحویل میں لینے کی سمری منظور کرتے ہوئے، بورڈ آف گورنرز سے گورنر کے اختیارات ختم کر کے انہیں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو منتقل کر دیا ہے۔ کابینہ کے مطابق اس اقدام کا مقصد انتظامی اصلاحات اور تعلیم میں بہتری لانا ہے، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف آئینی دائرہ اختیار سے تجاوز ہے بلکہ ایڈورڈز کالج کے تاریخی اور خودمختار کردار کے منافی بھی ہے۔
گورنر کنڈی نے صوبائی حکومت کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی صوبائی کابینہ سپریم کورٹ یا بورڈ آف گورنرز کے قانونی اختیار کو ختم نہیں کر سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ “ایڈورڈز کالج ایک آزاد ادارہ ہے، جو چرچ مشن سوسائٹی کے تحت قائم ہوا تھا، اور اس کا انتظام ہمیشہ بورڈ آف گورنرز کے تحت رہا ہے، جس کا چیئرمین گورنر ہوتا ہے۔ حکومت کا کام تعلیم کی سہولت دینا ہے، نہ کہ ادارے کے کنٹرول پر سیاسی کھینچا تانی۔”
اس معاملے پر پشاور کے بشپ نے بھی گورنر کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایڈورڈز کالج کی اصل سرپرست چرچ مشن سوسائٹی ہے، اور وہ موجودہ ڈھانچے میں کسی قسم کی تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے۔ ان کے بقول، “گورنر اور وزیراعلیٰ کالج پر کنٹرول کے لیے باہم برسرپیکار ہیں، لیکن ادارے کی خودمختاری کو برقرار رکھنا چرچ مشن سوسائٹی کی اولین ترجیح ہے۔”
ایڈورڈز کالج، جو مئی 1900 میں قائم ہوا تھا، برصغیر کے تاریخی تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ تاہم، 2019 سے ادارے میں مستقل پرنسپل کی عدم موجودگی، بورڈ کے اندرونی اختلافات، اور حکومتی مداخلت کے باعث ادارے کا تعلیمی معیار شدید تنزلی کا شکار ہے۔ حالیہ امتحانات کے نتائج اس تنزلی کو بے نقاب کرتے ہیں، جس پر اساتذہ، والدین اور طلبہ سب تشویش کا شکار ہیں۔
کالج کے کئی اساتذہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انتظامی بحران کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیوں میں تسلسل ختم ہو چکا ہے، طلبہ کی حاضری کم ہو گئی ہے، اور تدریسی معیار پست ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ ان کے مطابق، “جس ادارے نے کبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیات پیدا کیں، آج وہ انتظامی اور سیاسی کشمکش کا شکار ہو چکا ہے۔”
ماہرین تعلیم کے مطابق اگر موجودہ صورتحال کو فوری طور پر قانونی اور تعلیمی بنیادوں پر حل نہ کیا گیا، تو نہ صرف ایڈورڈز کالج کا تاریخی کردار ختم ہو جائے گا بلکہ ہزاروں طلبہ کا تعلیمی مستقبل بھی داؤ پر لگ جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ گورنر، صوبائی حکومت اور چرچ مشن سوسائٹی ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں، جس سے ادارے کی خودمختاری بھی محفوظ رہے اور تعلیمی معیار بھی بحال ہو۔
تنازع کے بڑھتے ہوئے خدشات کے باوجود، دونوں فریقین اپنی پوزیشن پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ گورنر فیصل کریم کنڈی اپنے آئینی اختیار کا دفاع کر رہے ہیں، جب کہ صوبائی حکومت تعلیمی اداروں پر زیادہ انتظامی اختیار حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔ یہ سیاسی کشمکش اگر جاری رہی، تو اس کے سب سے بڑے متاثر طلبہ اور اساتذہ ہوں گے، جن کا تعلیمی سفر غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔
ایڈورڈز کالج کے بحران نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ تاریخی اداروں کے تحفظ کے لیے صرف قانون کافی نہیں، بلکہ سنجیدہ مکالمہ، شفاف فیصلے اور ادارہ جاتی احترام بھی ضروری ہے۔ کیا یہ تنازع قانونی چارہ جوئی تک جائے گا؟ یا کسی مصالحتی عمل کے ذریعے اس تاریخی ادارے کو نئی زندگی دی جا سکے گی؟ وقت ہی بتائے گا۔