دریائے سندھ، چناب اور ستلج میں پانی کی سطح بلند، بستیاں ڈوب گئیں، مزید ہلاکتیں

پنجاب کے بعد سندھ میں سیلاب نے شدت اختیار کر لی ہے اور دریائے سندھ میں پانی کی آمد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ محکمہ آبپاشی کے مطابق گڈو بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب ہے جہاں پانی کی آمد بڑھ کر 5 لاکھ 37 ہزار کیوسک تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح سکھر بیراج پر پانی کی آمد 4 لاکھ 60 ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی جبکہ کوٹری بیراج پر نچلے درجے کا سیلاب جاری ہے۔
راجن پور کے کوٹ مٹھن اور چاچڑاں شریف کے مقامات پر بھی پانی کی سطح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جہاں دریائے سندھ کی سطح 11.4 فٹ تک پہنچ چکی ہے۔ محکمہ کے مطابق دریائے چناب میں ہیڈ پنجند پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب برقرار ہے اور پانی کا بہاؤ 6 لاکھ 64 ہزار کیوسک تک جا پہنچا ہے۔ اس کے برعکس دریائے راوی میں ہیڈ سدھنائی پر بہاؤ میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے اور وہاں درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔
دریائے ستلج کی طغیانی بھی بتدریج کم ہو رہی ہے۔ گنڈا سنگھ والا کے مقام پر بہاؤ گھٹ کر 78 ہزار کیوسک رہ گیا ہے اور اب وہاں نچلے درجے کا سیلاب ہے۔ ہیڈ سلیمانکی پر نچلے جبکہ ہیڈ اسلام پر درمیانے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے۔
سیلابی صورتحال نے جنوبی پنجاب کے کئی علاقے بری طرح متاثر کیے ہیں۔ ملتان کے شجاع آباد کی درجنوں بستیاں زیر آب آ گئی ہیں جہاں مقامی آبادی اپنی مدد آپ کے تحت نقل مکانی پر مجبور ہے۔ لوگ اپنے ساز و سامان اور مویشیوں کے ساتھ محفوظ مقامات کی طرف جا رہے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق موضع دھوندو کے مقام پر فلڈ بند میں 80 فٹ چوڑا شگاف پڑنے سے سیلابی ریلا آبادی میں داخل ہوا جس کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے فلڈ بند پر پناہ لی۔
دریائے چناب کے سپر بند میں بھی شگاف پڑ گیا ہے۔ شگاف پُر کرنے کی کوشش کے دوران تین مزدور تیز بہاؤ میں بہہ گئے، تاہم دو کو زندہ بچا لیا گیا۔ ادھر شجاع آباد شہر کے تحفظ کے لیے بختو واہ نہر کا بند آخری رکاوٹ کے طور پر باقی ہے۔ یہ بند شہر سے محض دو کلومیٹر دور ہے جس کے باعث شہریوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
سیلابی صورتحال کے دوران جانی نقصان بھی بڑھ رہا ہے۔ بدھ کی رات جلال پور میں کشتی الٹنے سے مزید دو افراد جاں بحق ہو گئے، جس کے بعد اس حادثے میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 7 تک پہنچ گئی ہے۔ مقامی حکام کے مطابق امدادی کارروائیاں جاری ہیں لیکن شدید پانی کے بہاؤ اور کچے علاقوں میں رسائی نہ ہونے کے باعث مشکلات درپیش ہیں۔
ماہرین کے مطابق دریائے سندھ اور چناب میں پانی کی سطح مزید بلند ہونے کا خدشہ ہے جس سے سندھ کے نشیبی علاقوں میں خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ اگر پانی کی آمد میں مزید اضافہ ہوا تو یہ سیلاب صوبے کے مزید اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ حکومت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ نشیبی علاقوں کو فوری طور پر خالی کریں اور مقامی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں۔
سیلابی ریلوں سے فصلوں، گھروں اور بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ مقامی زرعی ماہرین کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ نقصان گنے، کپاس اور چاول کی فصلوں کو ہو رہا ہے جس کے اثرات آنے والے مہینوں میں خوراک کی قلت اور مالی نقصانات کی صورت میں سامنے آئیں گے۔
یہ صورتحال ایک بڑے انسانی بحران کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس کے لیے حکومت نے ایمرجنسی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ تاہم متاثرہ علاقوں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ انہیں فوری طور پر خوراک، طبی سہولیات اور محفوظ پناہ گاہوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس قدرتی آفت کے اثرات سے بچ سکیں۔