ملک بھر میں 2.8 لاکھ گھرانے اندھیرے میں، حکومت نے بلوں میں رعایت پر تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا

پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں لاکھوں خاندان اب بھی اندھیروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کیونکہ بجلی کی بحالی کے باوجود 2 لاکھ 83 ہزار 496 صارفین کو تاحال بجلی فراہم نہیں کی جا سکی۔
پاور ڈویژن کی تازہ رپورٹ کے مطابق شدید بارشوں اور سیلاب سے 51 گرڈ اسٹیشن اور 537 فیڈرز متاثر ہوئے تھے جس سے 17 لاکھ 30 ہزار سے زائد صارفین بجلی سے محروم ہوئے۔ ان میں سے تقریباً 14 لاکھ 50 ہزار کو بجلی فراہم کر دی گئی ہے، تاہم باقی گھروں میں اندھیرا چھایا ہوا ہے۔
پاور ڈویژن کے مطابق فیلڈ ٹیمیں پانی میں ڈوبے علاقوں میں جا کر لائنوں اور فیڈرز کی مرمت کر رہی ہیں، مگر جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں پانی نہ اترنے کے باعث صورتحال اب بھی سنگین ہے۔ فیصل آباد، جھنگ، چنیوٹ، سرگودھا اور میانوالی میں 28 گرڈ اسٹیشن اور 81 فیڈرز متاثر ہوئے جہاں 2 لاکھ سے زائد صارفین بجلی سے محروم ہوئے تھے۔ ان میں سے نصف کو بجلی فراہم کر دی گئی ہے جبکہ باقی کو پانی اترنے کا انتظار کرنا ہوگا۔
لاہور اور شیخوپورہ میں مکمل بحالی ہو چکی ہے، جبکہ لیسکو کے دیگر علاقوں میں 6 ہزار سے زائد صارفین 12 ستمبر تک بجلی کی فراہمی کے منتظر ہیں۔ ملتان اور جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع میں صورتحال سب سے زیادہ خراب ہے جہاں 1 لاکھ 99 ہزار سے زائد صارفین متاثر ہوئے تھے، لیکن اب تک صرف 18 ہزار صارفین کو ہی بجلی فراہم ہو سکی ہے۔
اس کے برعکس گوجرانوالہ، پشاور اور ہزارہ کے بیشتر علاقوں میں تقریباً مکمل بحالی ہو گئی ہے۔ ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنی (TESCO) نے بھی شمالی وزیرستان اور خیبر میں زیادہ تر فیڈرز بحال کر دیے ہیں جبکہ باقی چند ہزار صارفین کو 15 ستمبر تک بجلی فراہم کرنے کا ہدف ہے۔
سیلاب زدہ علاقوں کے مکین بجلی کی بندش کے باعث پینے کے پانی، خوراک کے ذخائر اور مواصلاتی رابطوں سے محروم ہیں۔ مظفر گڑھ کے ایک رہائشی نے بتایا: “ہر رات خوف اور مایوسی میں گزرتی ہے، بچے اندھیرے میں روتے ہیں اور ہم اپنے فون تک چارج نہیں کر سکتے۔”
دوسری جانب حکومت نے سیلاب متاثرہ صارفین کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کا تاحال کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں کیا۔ اگرچہ 9 ستمبر کو وفاقی وزیر قومی خوراک و تحقیق رانا تنویر حسین نے اعلان کیا تھا کہ متاثرہ علاقوں کو ریلیف دیا جائے گا، لیکن وزارت توانائی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ “ابھی تک کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں، جب بھی حکم آئے گا تو مالی اثرات کا تخمینہ لگا کر تجاویز دی جائیں گی۔”
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کا وفد رواں ماہ پاکستان پہنچنے والا ہے، اور ممکن ہے کہ بلوں میں ریلیف کا معاملہ ان سے مشاورت کے بعد ہی طے پائے۔ وزارت خزانہ نے وفد کی آمد کی حتمی تاریخ تاحال ظاہر نہیں کی۔
بجلی تقسیم کار کمپنیاں روزانہ اپنے نقصانات کی رپورٹس پاور ڈویژن اور پاور پلاننگ اینڈ مانیٹرنگ کمپنی (PPMC) کو بھیج رہی ہیں جو سابق پیپکو کا نیا نام ہے۔ حکومت عارضی طور پر چند ماہ کے لیے بلوں کی ادائیگی مؤخر کرنے پر غور کر رہی ہے لیکن یہ بل بعد میں لازمی ادا کرنا ہوں گے۔
وفاقی کابینہ نے حالیہ اجلاس میں توانائی شعبے کی اصلاحات پر بھی گفتگو کی ہے اور وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری کی قیادت میں پاور ڈویژن کو مزید اقدامات کی ہدایت دی گئی ہے۔
یوں بجلی کی بحالی کا عمل جاری ہونے کے باوجود لاکھوں خاندان اب بھی اندھیروں میں ہیں، جبکہ بلوں میں ریلیف کا معاملہ غیر یقینی ہے اور اس پر حتمی فیصلہ اعلیٰ حکام اور آئی ایم ایف سے مشاورت کے بعد ہی سامنے آئے گا۔