پیر , اکتوبر 13 2025

پنجاب میں 32 سال کا بدترین سیلاب، فوج طلب

کرتارپور زیر آب، دریاؤں کے کنارے آبادیوں کا انخلا

بھارت کی جانب سے دریائے راوی میں دو لاکھ کیوسک پانی چھوڑنے اور مسلسل مون سون بارشوں کے باعث پنجاب میں کئی دہائیوں کے بدترین سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ درجنوں قصبے زیر آب آ گئے، زرعی زمینیں برباد ہو گئیں اور لاکھوں افراد کو محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا، جب کہ حکام نے مزید تباہی کے خدشے کی وارننگ جاری کی ہے۔

سیلابی ریلوں نے دریائے چناب، راوی اور ستلج میں پانی کی سطح کو انتہائی خطرناک حد تک پہنچا دیا ہے۔ ہیڈ خانکی پر چناب میں پانی کا بہاؤ دس لاکھ کیوسک سے تجاوز کر گیا، جو ہیڈورکس کی آٹھ لاکھ کیوسک ڈیزائن گنجائش سے زیادہ ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے خبردار کیا ہے کہ یہ دباؤ صوبے کے اہم ہیڈورکس اور بیراجوں کے ہائیڈرولک ڈھانچے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن لاہور کے مطابق دریائے چناب میں ہیڈ مرالہ، دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا اور دریائے راوی میں جسڑ کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ حکام نے تصدیق کی ہے کہ دریائے راوی میں گزشتہ 32 سال کا بدترین سیلاب آیا ہے جس کے باعث اب تک 45 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ شاہدرہ اور موٹروے-2 کے نشیبی علاقوں میں فوری طور پر ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہے۔

گوجرانوالہ میں ضلعی حکام نے دریائے چناب کے قادرآباد ہیڈورکس پر دباؤ کم کرنے اور ڈھانچے کو محفوظ بنانے کے لیے کنٹرولڈ دھماکے کیے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے بتایا کہ یہاں پانی کی سطح انتہائی اونچے درجے پر پہنچ چکی تھی جس کی وجہ سے ہنگامی اقدام ناگزیر تھا۔

ریسکیو کارروائیاں بھی تیز کر دی گئی ہیں۔ نارووال میں 50 خواتین اور بچوں کو بچایا گیا جو سیلابی پانی میں پھنس گئے تھے اور دیوار سے لپٹ کر اپنی جانیں بچا رہے تھے۔ ان کے ساتھ پھنسنے والے صوبائی اسمبلی کے رکن احمد اقبال لہڑی اور ان کے ساتھیوں کو بھی ریسکیو کر لیا گیا۔ شکرگڑھ میں کشتیوں کے ذریعے متاثرہ اور کٹے ہوئے علاقوں تک امدادی ٹیموں نے رسائی حاصل کی جہاں متاثرین فوری مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔

پنجاب کے مختلف علاقے زیر آب آ گئے ہیں۔ ننکانہ صاحب کے ہیڈ بلوکی پر درمیانے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے جہاں پانی کا بہاؤ 79 ہزار کیوسک سے تجاوز کر گیا۔ ہیڑے، جٹاں دا واڑہ، نواں کوٹ، خضرآباد اور لالو آنا سمیت متعدد دیہات ڈوب گئے ہیں، جبکہ شیخ دا ٹیوب ویل، گجراں دا ٹھٹہ اور ڈیرہ حاکم جیسے علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ دھان، مکئی، سبزیوں اور چارے کی فصلیں بڑے پیمانے پر متاثر ہو رہی ہیں۔

کرتارپور مکمل طور پر زیر آب آ چکا ہے، پانی گھروں، کھیتوں اور سکھ برادری کے مقدس گوردوارہ دربار صاحب تک میں داخل ہو گیا ہے۔ دوسری طرف دریائے سندھ پر سکھر بیراج پر بھی نچلے درجے کا سیلاب رپورٹ کیا گیا ہے جس سے امدادی اداروں پر دباؤ مزید بڑھ گیا ہے۔

حکام کے مطابق اب تک 45 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں تاہم کوئی جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا۔ متاثرین کے لیے ریلیف کیمپ قائم کر دیے گئے ہیں، جب کہ خاندانوں اور مویشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ مقامی لوگ اور سرکاری ادارے مل کر کچے بند تعمیر کرنے اور پشتوں کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پانی کو قابو میں رکھا جا سکے۔

دریائے چناب میں مرالہ بیراج پر پانی کی آمد 4 لاکھ 79 ہزار کیوسک جب کہ خانکی پر 2 لاکھ 55 ہزار 800 کیوسک ریکارڈ کی گئی۔ چنیوٹ میں پانی کی سطح ایک لاکھ کیوسک تک جا پہنچی ہے، اور پیش گوئی کے مطابق آئندہ دو دنوں میں 3 لاکھ 50 ہزار کیوسک کا ریلا وہاں پہنچ سکتا ہے۔ حکام نے خبردار کیا ہے کہ پانی کی سطح میں مزید اضافہ ہو گا جس سے زیریں اضلاع مزید متاثر ہوں گے۔

صورتحال سنگین ہونے پر پاک فوج کو آٹھ اضلاع میں طلب کر لیا گیا ہے جن میں لاہور، حافظ آباد، سرگودھا، قصور، سیالکوٹ، فیصل آباد، نارووال اور اوکاڑہ شامل ہیں۔ فوجی جوان کشتیوں کے ذریعے متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں، ریلیف کیمپ قائم کر رہے ہیں اور مویشیوں اور سامان کو بھی منتقل کیا جا رہا ہے۔ ریسکیو 1122 اور پنجاب پولیس دریاؤں کے کناروں پر الرٹ ہیں جبکہ خطرناک علاقوں میں سائرن بجا کر آبادی کو خبردار کیا جا رہا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی وزرا کو ہدایت دی ہے کہ وہ فوری طور پر سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کریں، انخلا اور ریلیف کارروائیوں کی نگرانی کریں اور متعلقہ اداروں کے درمیان بہتر رابطہ قائم کریں۔ انہوں نے کہا کہ “ریسکیو آپریشنز کو مزید تیز کیا جائے اور دریاؤں کے کناروں پر آباد آبادی کو ہر صورت محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے۔”

یہ صورتحال پنجاب کی مون سون کے دوران کمزوری کو نمایاں کرتی ہے، خاص طور پر جب بھارت کی جانب سے پانی کے اخراج اور بارشیں ایک ساتھ ہوں۔ ماضی میں 2014 اور 2019 میں بھی اسی طرح کے سیلابوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی تھی، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پانی کی سطح مزید بڑھی تو اس سال کی تباہی ان سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

فی الحال حکام کی اولین ترجیح انسانی جانوں کو محفوظ بنانا اور متاثرہ آبادی کو منتقل کرنا ہے، لیکن جیسے جیسے دیہات، فصلیں اور انفراسٹرکچر پانی میں ڈوبتے جا رہے ہیں، خوراک کی فراہمی، زرعی نقصانات اور پنجاب کی دیہی معیشت کی بحالی کے بارے میں خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔

About Aftab Ahmed

Check Also

لاہور ٹیسٹ کے پہلے روز پاکستان کے 5 وکٹوں پر 313 رنز

شان مسعود، امام الحق کی نصف سنچریاں، رضوان اور سلمان علی آغا کی شراکت نے …