
پاکستان ٹیکسٹائل کونسل نے ایف بی آر کے ایس آر او 1359(I)/2025 کے تحت ترامیم پر شدید تحفظات ظاہر کیے، جس سے صنعت کے مطابق ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی برآمدات کو نقصان ہوگا۔
پاکستان ٹیکسٹائل کونسل (PTC) نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کی جانب سے ایس آر او 1359(I)/2025 کے ذریعے برآمدی سہولت اسکیم (EFS) میں کی گئی حالیہ ترامیم کو ملکی برآمدات کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے، اور حکومت سے فوری نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ کونسل کے مطابق یہ اقدامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستان کی ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی صنعت پہلے ہی عالمی دباؤ اور تجارتی رکاوٹوں کے باعث مشکلات کا شکار ہے۔
وزیراعظم کی ہدایت پر بنائی گئی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی، جس کی سربراہی وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کر رہے تھے، نے نجی شعبے کے ساتھ مشاورت کے بعد برآمدی سہولت اسکیم کا تفصیلی جائزہ لیا تھا۔ تاہم، پی ٹی سی کے مطابق ان سفارشات کو نظرانداز کرتے ہوئے نئی ترامیم نافذ کر دی گئیں، جس سے صنعت کے بنیادی خدشات حل ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے ہیں۔
سب سے بڑی تبدیلی جس پر صنعت نے اعتراض کیا ہے وہ یہ ہے کہ روئی، سوت اور گرے کپڑے جیسے بنیادی خام مال کو برآمدی سہولت اسکیم کے دائرہ کار سے خارج کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد برآمد کنندگان کو ان اشیاء کی درآمد پر محصولات اور سیلز ٹیکس ادا کرنا ہوگا، جو براہِ راست لاگت میں اضافے اور مسابقتی برتری کے نقصان کا سبب بنے گا۔ پی ٹی سی کے چیئرمین فواد انور نے کہا کہ یہ اقدام عملی طور پر برآمدات پر ٹیکس عائد کرنے کے مترادف ہے اور ملکی معیشت کے استحکام کی کوششوں کے برعکس ہے۔
پی ٹی سی نے اپنے اعتراضات اور پالیسی تجاویز چیئرمین ایف بی آر راشد لنگریال، وزیراعظم آفس، وزیر منصوبہ بندی، وزیر تجارت اور وزیر خزانہ کو جمع کرا دی ہیں۔ ان تجاویز میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ برآمدی سہولت اسکیم کے تحت خام مال کے استعمال کی مدت کم از کم 18 ماہ برقرار رکھی جائے تاکہ پیداواری اور برآمدی عمل میں آسانی ہو۔ مزید یہ کہ نئے صارفین کو ان کی ڈیکلیئر کردہ پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر پرویژنل منظوری دی جائے تاکہ صنعت کو وقت ضائع کیے بغیر سہولت میسر آ سکے۔
اسی طرح پی ٹی سی نے مطالبہ کیا ہے کہ بینک گارنٹی کی جگہ انشورنس گارنٹی کو قبول کیا جائے تاکہ لاگت میں کمی ممکن ہو، جبکہ ٹول مینوفیکچرنگ پر 60 دن کی پابندیوں کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ عملی طور پر غیر حقیقی ہیں۔ کونسل نے غیر ضروری فزیکل سیمپلنگ کے قواعد کے خاتمے اور روئی، سوت اور گرے کپڑے کو دوبارہ اسکیم میں شامل کرنے پر بھی زور دیا ہے۔
یہ تنازع ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کی برآمدی صنعت بیرونی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے۔ امریکا نے حال ہی میں پاکستانی برآمدات پر جوابی محصولات عائد کیے ہیں، جبکہ عالمی سطح پر تجارتی رکاوٹوں اور شرحِ مبادلہ کے غیر یقینی حالات نے بھی برآمد کنندگان کے لیے مشکلات بڑھا دی ہیں۔ اس پس منظر میں، صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کو سہولت کاری پر مرکوز ہونا چاہیے نہ کہ رکاوٹوں میں اضافے پر۔
پاکستان کا ٹیکسٹائل شعبہ مجموعی برآمدات میں سب سے بڑا حصہ رکھتا ہے اور لاکھوں افراد کے روزگار سے جڑا ہوا ہے۔ ماضی میں بھی جب حکومت نے خام مال کی درآمد پر محصولات یا سخت ضوابط عائد کیے تھے تو اس کے نتیجے میں برآمدی کارکردگی متاثر ہوئی تھی۔ صنعتکاروں کو خدشہ ہے کہ اگر حالیہ ترامیم فوری طور پر واپس نہ لی گئیں تو عالمی منڈیوں میں پاکستان کا حصہ مزید سکڑ جائے گا۔
پی ٹی سی نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وزیراعظم کی قائم کردہ کمیٹی کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترامیم پر نظرثانی کی جائے تاکہ برآمدی شعبے کو استحکام مل سکے۔ کونسل کا کہنا ہے کہ اگر حکومتی فیصلے بروقت درست نہ کیے گئے تو پاکستان کی برآمدی صلاحیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے، جو زرمبادلہ کے ذخائر اور مجموعی معاشی بحالی کی کوششوں پر منفی اثر ڈالے گا۔
پاکستان ٹیکسٹائل کونسل نے واضح کیا ہے کہ حکومت کو فوری مداخلت کر کے ان ترامیم کے نفاذ کو روکنا ہوگا تاکہ برآمد کنندگان کو درپیش خطرات کم کیے جا سکیں اور ملک کی سب سے بڑی برآمدی صنعت عالمی سطح پر اپنی مسابقت برقرار رکھ سکے۔