پیر , اکتوبر 13 2025

پنجاب میں اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ

پنجاب کے مشرقی اضلاع میں دریاؤں میں اونچے درجے کے سیلاب کے خدشے کے باعث بڑے پیمانے پر انخلا شروع کر دیا گیا ہے جبکہ گلگت بلتستان میں حالیہ برفانی اور طغیانی سیلاب سے متاثرہ ہزاروں افراد تاحال حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔

ریسکیو 1122 کے ترجمان فاروق احمد کے مطابق صرف گزشتہ دو دنوں میں دریائے سندھ، چناب، راوی اور ستلج کے زیریں علاقوں سے 24 ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے سیلابی الرٹ موصول ہونے کے بعد قصور، اوکاڑا، پاکپتن، بہاولنگر، وہاڑی اور نارووال میں ہنگامی بنیادوں پر انخلا کی کارروائیاں جاری ہیں۔ ان علاقوں میں شدید مون سون بارشوں کے باعث دریاؤں میں پانی کی سطح تیزی سے بلند ہو رہی ہے اور اگلے 48 گھنٹوں میں مزید بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

ادھر صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے بھی پنجاب بھر میں سیلاب کا الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ دریائے چناب، راوی اور ستلج میں ’’اونچے سے بہت اونچے درجے‘‘ کے سیلاب کا امکان ہے جبکہ لاہور، راولپنڈی اور گوجرانوالہ ڈویژن میں شہری علاقوں میں اربن فلڈنگ کا خدشہ موجود ہے۔

دریائے ستلج میں ہریکے کے مقام پر اونچے درجے کے سیلاب کی وارننگ جاری کر دی گئی ہے، جہاں بالائی اور زیریں علاقوں میں پانی کا بہاؤ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ گنڈا سنگھ والا پر دریائے ستلج میں اونچے درجے اور سلیمانکی پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔ دریائے چناب میں مرالہ اور خانکی پر درمیانے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ دریائے سندھ میں کالا باغ اور چشمہ پر نچلے درجے کا سیلاب موجود ہے۔

ہائیڈرولوجیکل اعداد و شمار کے مطابق تربیلا ڈیم مکمل بھر چکا ہے، منگلا ڈیم 76 فیصد بھرا ہے جبکہ بھارت کے ڈیمز بھاکرا، پونگ اور تھیئن بالترتیب 80، 87 اور 85 فیصد بھرے ہوئے ہیں۔ بھارت کے مادھوپر ڈیم سے پانی کے اخراج کی وارننگ کے بعد دریائے راوی، چناب اور ستلج میں شدید طغیانی کا اندیشہ ہے۔

نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے رپورٹ دی ہے کہ اگلے 48 گھنٹوں میں دریائے راوی میں جسر کے مقام پر پانی کا بہاؤ 80 ہزار سے ایک لاکھ 25 ہزار کیوسک تک پہنچ سکتا ہے۔ دریائے چناب میں مرالہ کے مقام پر پانی کی سطح ایک لاکھ 50 ہزار سے 2 لاکھ کیوسک تک جانے کا امکان ہے، جبکہ دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر بہاؤ ایک لاکھ 90 ہزار سے 2 لاکھ 20 ہزار کیوسک تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر یہ پیش گوئیاں درست ثابت ہوئیں تو کئی اضلاع میں بڑے پیمانے پر سیلابی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق اگر بارشوں کا سلسلہ جاری رہا اور بھارت کی جانب سے مزید پانی چھوڑا گیا تو 27 اگست تک دریائے راوی میں درمیانے درجے کا سیلاب ’’اونچے درجے‘‘ میں بدل سکتا ہے۔ ادارے نے لاہور، ساہیوال، ملتان، بہاولپور اور ڈی جی خان کے کمشنرز سمیت قصور، اوکاڑا، پاکپتن، وہاڑی، بہاولنگر، لودھراں، ملتان اور مظفرگڑھ کے ڈپٹی کمشنرز کو ہائی الرٹ پر رہنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مختلف اضلاع میں بارش ریکارڈ کی گئی، جس میں نارووال میں سب سے زیادہ 27 ملی میٹر، سیالکوٹ میں 5 ملی میٹر، قصور میں 4 ملی میٹر، لاہور اور گوجرانوالہ میں 3 ملی میٹر جبکہ گجرات اور خانیوال میں ایک ملی میٹر بارش شامل ہے۔

پاکستان میں مون سون بارشوں کے دوران دریاؤں میں طغیانی اور سیلاب کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ 2010 میں آنے والے بدترین سیلاب نے ملک بھر میں دو کروڑ سے زائد افراد کو متاثر کیا تھا اور اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا تھا۔ حالیہ صورتحال ایک بار پھر یاد دہانی کراتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور غیر یقینی بارشوں کے پیٹرن کے باعث سیلابی خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلابی خطرات سے نمٹنے کے لیے بروقت انخلا اور ہنگامی منصوبہ بندی ناگزیر ہے، تاہم طویل مدتی بنیادوں پر ڈیموں کی استعداد میں اضافہ، جدید ہائیڈرولوجیکل مانیٹرنگ اور بین الاقوامی پانیوں کے انتظام پر بہتر تعاون کے بغیر مسئلے کا پائیدار حل ممکن نہیں ہوگا۔

پنجاب میں موجودہ انخلا کی کارروائی اور گلگت بلتستان کے متاثرہ علاقوں میں امداد کی کمی واضح کرتی ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی خطرات کے مقابلے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں انسانی جانوں اور معاشی نقصانات کو کم کیا جا سکے۔

About Aftab Ahmed

Check Also

لاہور ٹیسٹ کے پہلے روز پاکستان کے 5 وکٹوں پر 313 رنز

شان مسعود، امام الحق کی نصف سنچریاں، رضوان اور سلمان علی آغا کی شراکت نے …