ماہرین کے مطابق چہرے پر دانے ایک عام مگر قابل علاج مسئلہ ہے جو بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں داغ دھبوں کا باعث بن سکتا ہے۔

چہرے پر دانے یا مہاسے (Acne) دنیا بھر میں سب سے زیادہ پائی جانے والی جلدی بیماریوں میں شمار ہوتے ہیں، جو صرف نوجوانوں تک محدود نہیں بلکہ ہر عمر کے افراد کو متاثر کر سکتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ مسئلہ بظاہر سادہ نظر آتا ہے مگر اس کے اثرات براہ راست انسان کی خود اعتمادی، سماجی تعلقات اور نفسیاتی کیفیت پر پڑتے ہیں۔ اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو مہاسے جلد پر مستقل نشانات چھوڑ سکتے ہیں جو بعد ازاں علاج کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق مہاسوں کی بنیادی وجوہات میں سب سے زیادہ عام عنصر چکنی جلد ہے۔ جلد میں موجود سیبیسیئس غدود جب ضرورت سے زیادہ تیل پیدا کرتے ہیں تو یہ مسام کو بند کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں جراثیم پھنس جاتے ہیں اور دانے ابھر آتے ہیں۔ ہارمونی تبدیلیاں بھی ایک اہم وجہ ہیں، خاص طور پر بلوغت، حیض، حمل یا ذہنی دباؤ کے دوران۔ اس کے علاوہ ناقص غذا، جیسے تلی ہوئی اشیاء، چاکلیٹ، کاربونیٹیڈ مشروبات اور جنک فوڈ کا زیادہ استعمال بھی مہاسوں کی شدت بڑھا سکتا ہے۔
صفائی کی کمی، ناقص میک اپ مصنوعات اور وراثتی عوامل بھی دانوں کے پھیلاؤ میں کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض دوائیں، خاص طور پر اسٹیرائیڈز اور ہارمونی علاج، چہرے پر مہاسوں کو بڑھا سکتے ہیں۔ ماہر امراض جلد کے مطابق یہ تمام عوامل مل کر نہ صرف جلد کی صحت کو متاثر کرتے ہیں بلکہ ایک طویل مدتی علاج کی ضرورت پیدا کر سکتے ہیں۔
بچاؤ کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ باقاعدگی سے چہرہ دھونا سب سے مؤثر تدبیر ہے۔ دن میں کم از کم دو بار معیاری فیس واش کے استعمال سے جلد صاف رہتی ہے اور مسام بند نہیں ہوتے۔ اسی طرح زیادہ پانی پینا، سبزیاں اور پھل استعمال کرنا، اور فائبر والی خوراک لینا جلد کو صحت مند رکھتی ہے۔ معیاری نان کومیڈوجینک میک اپ استعمال کرنا، صاف تولیہ اور تکیہ استعمال کرنا اور چہرے کو بار بار ہاتھ نہ لگانا بھی اہم عادات ہیں۔ ذہنی دباؤ کم کرنے کے لیے ورزش، مراقبہ اور مکمل نیند ہارمونی توازن کو بہتر بناتے ہیں اور مہاسوں کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بعض اوقات گھریلو علاج یا احتیاطی تدابیر مؤثر ثابت نہیں ہوتیں۔ اگر دانے حد سے زیادہ بڑھ جائیں، تکلیف دہ ہوں یا ان کے نشانات مستقل رہنے لگیں تو فوری طور پر ڈرماٹولوجسٹ سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ یہی صورت اس وقت بھی ہے جب کئی ماہ تک مہاسے برقرار رہیں یا گھریلو طریقے کارگر نہ ہوں۔ بروقت طبی علاج سے نہ صرف دانوں پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ مستقبل میں جلدی داغ دھبوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
عالمی سطح پر کیے گئے مطالعات سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ تقریباً 80 فیصد نوجوان اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں مہاسوں کا شکار ہوتے ہیں، تاہم مؤثر علاج اور بہتر طرزِ زندگی کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جلدی مسائل کو نظر انداز کرنے کے بجائے بروقت معالج سے رجوع کرنا ضروری ہے تاکہ پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔
چہرے پر دانے بلاشبہ ایک عام مسئلہ ہیں مگر درست معلومات، صحت مند عادات اور وقت پر علاج اختیار کر کے اس سے بچاؤ ممکن ہے۔ صاف ستھرا طرزِ زندگی، متوازن غذا اور جلد کی روزانہ دیکھ بھال ہر عمر کے افراد کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر مسئلہ شدت اختیار کرے تو ڈرماٹولوجسٹ سے بروقت مشورہ جلد کو خوبصورت اور مہاسوں سے پاک رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔