گزشتہ سال گندم کی کٹائی کے سیز ن کی طرح آنے والی سیزن کیلئے بھی وفاقی حکومت تاحال گندم کی امدادی قیمت مقرر کرنے میں ٹال مٹول کی پالیسی پر گامزن ہے ۔
اسی طرح دونوں صوبائی حکومتیں –سندھ اور پنجاب –نے بھی ابھی تک گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ یا برقرار رکھنے پر چپ کا روزہ رکھا ہواہے ۔
گندم کی امدادی قیمت اور خریداری کا ہدف مقرر نہ ہونے کے باعث گندم کے کاشت کردہ رقبہ میں کمی کا امکان ہے اور کاشتکار گندم کی بوائی کے بجائے دیگر نقدر آور فصلات کی طرف راغب ہوسکتے ہیں ۔
ایک حکومتی ادارہ نے وزارت خوراک کو خبردار بھی کیا ہے کہ اگر وزارت نے کسانوں کیلئے گندم کی امدادی قیمت اور خریداری ہدف کیلئے اقدامات نہ کیے تو وفاقی حکومت کو ایک ارب ڈالر کی گندم درآمد کرنا پڑے گی۔
اس صورتحال کے پیش نظر وفاقی وزارت خوراک نے وزیر اعظم شہباز شریف کو تجویز دی ہے کہ وہ فوری طور پر گندم کی امدادی قیمت اور اس کی خریداری کے اہداف کا اعلان کریں تاکہ ایک ارب ڈالر کی گندم درآمدکرنے سے بچا جاسکے۔
یہ تجویز ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب آئی ایم ایف نے زرعی منڈیوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مداخلت روکنے کی شرط عائد کر رکھی ہے۔
وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ نے وزیراعظم سے یہ بھی سفارش کی ہے کہ وہ کسانوں میں پائی جانے والی بے چینی اور غیر یقینی صورتحال کو ختم کرنے کیلیے فوری مداخلت کریں۔
وزارت کے مطابق کسانوں میں یہ بھی واضح نہیں کہ آیا وفاقی حکومت گندم کی نئی کم از کم امدادی قیمت طے اور خریداری کے اہداف مقرر کرے گی یا نہیں کریگی۔
وزارت خوراک نے وزیر اعظم سے مزید کہا کہ مسلسل دوسرے سال امدادی قیمت اور خریداری اہداف مقرر نہ کرنے کا فیصلہ کسانوں کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ مقامی کھپت کیلیے کافی گندم کاشت نہ کریںاور اس کے نتیجے میں ایک ارب ڈالر مالیت کی گندم درآمد کرنا پڑ سکتی ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا کہ حکومت2025 کے خریف فصل کے سیزن کیلئے توقعات طے کرنے اور رکاوٹیںکم کرنے کیلئے ستمبر 2024 کے آخر تک عبوری انتظامات کیلئے اپنی حکمت عملی ترتیب دیگی۔
تاہم اس ہفتے وفاقی وزارت خوراک نے وزیر اعظم کو پہلے آپشن میں تجویز دی کہ وہ صوبوں کی مشاورت سے ربیع سیزن 2024-25 کیلیے امدادی قیمت اور خریداری اہداف طے کرنے کی ہدایت کریں اور اس بات کی تشہیر کریں کہ آئی ایم ایف سے وعدوں کے مطابق یہ پالیسی ربیع 2025-26 سے بند کر دی جائیگی۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ وزیر اعظم یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ اس سال گندم کی امدادی قیمت مقرر نہیں کی جائیگی تاہم حکومت صرف اس سال مارکیٹ ریٹ پر گندم خریدے گی تاکہ مارکیٹ اور کسانوں میں بے یقینی کا خاتم ہو۔
تیسرے آپشن کے تحت وزیر اعظم گندم کی امدادی قیمت اور خریداری کا معاملہ فیصلے کیلئے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھیج سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال حکومت پنجاب نے گندم نہیں خریدی تھی اور اس کے ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے گندم کی درآمدات نے مقامی مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں گرگئیں تھیں اور اس سے کسانوں کو بہت مالی نقصان ہواتھا۔
تاحال وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے واضح پالیسی نہ آنے کی صورت میں آئندہ ربیع کے سیزن میں گندم کی بوائی کے حوالے سے کسانوں میں عدم اعتماد اور مزید بدگمانیاں پیدا ہوگیں۔
کسان نمائندوں نے گزشتہ ربیع سیزن کے دوران گندم خریداری کی پالیسی، منڈی کی موجودہ صورتحال اور آئندہ ربیع سیزن کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پالیسیوں پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ گندم کی امدادی قیمت مقرر نہ ہونے کی صورت میں آئندہ ربیع کے سیزن میں گندم کی بوائی کے رقبے میں نمایاں کمی کا خدشہ ہے۔
گزشتہ سال تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں تقریبا 6.2 ملین میٹرک ٹن گندم خرید رہی تھیں۔ وفاقی حکومت کے پاس 30 ستمبر تک 2024 تک 2.7 ملین میٹرک ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے، جبکہ گزشتہ چار سال میں اسی عرصہ میں1.4 ملین میٹرک ٹن کا اوسط ذخیرہ تھا۔