سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواست خارج کردی،
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی وکلا نے کیس کے میرٹس پر دلائل دیے اور نہ ہی گزشتہ فیصلہ میں کسی غیر قانونی نکتے کی نشاندہی کی۔
سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواست پر سماعت ہوئی،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے کیس سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی 3 رکنی خصوصی بینچ کا حصہ ہیں۔
سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور لارجر بینچ کی تشکیل کی استدعا کی، حامد خان نے موقف اختیار کیا کہ کیس لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے کمیٹی کو بھیجا جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے یہ نظرثانی کا معاملہ ہے ہم نے قانون کو دیکھنا ہے،
نظرثانی درخواست میں عدالتی فیصلوں کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھانے ہوتے ہیں، آپ نے لارجر بینچ کی پہلے استدعا کیوں نہ کی؟ آپ کیس کو چلا لیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست میں 8 ججز کے فیصلے کے پیرا 114 کا حوالہ دیا ہے، اس فیصلے کا اس کیس سے کیا تعلق ہے؟
حامد خان نے موقف اپنایا کہ عدالت سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کیس کے فیصلے کا پیراگراف دیکھے، یہ بینچ اس 13 رکنی بینچ کا فیصلہ ماننے کا پابند ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے وہ فیصلہ ہم کیوں دیکھیں؟ یہ اور معاملہ ہے وہ الگ معاملہ ہے، آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟
حامد خان نے جواب دیا کہ میں اب وہ کہہ دیتا ہوں جو کہنا نہیں چاہتا تھا چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی وی پر بات کرنے کے بجائے منہ پر بات کرنے والے کو میں پسند کرتا ہوں۔
حامد خان نے موقف اپنایا کہ چاہتا ہوں وہ جج بینچ کی سربراہی نہ کرنے جو ہمارے خلاف تعصب رکھتا ہو، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میں آپ کو دلائل دینے ہر مجبور نہیں کر سکتا۔