وفاقی حکومت نے پاور ڈویژن سے کہا ہے کہ وہ 4,267 میگاواٹ پیدا کرنے والے 18 انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز(آئی پی پیز)کو ادائیگیاں روک دے ، کیونکہ حکومت ان کے ساتھ معاہدے کی تبدیلی پر بات چیت جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ 18 آئی پی پیز 1994 اور 2002 کی پاور جنریشن پالیسیوں کے تحت قائم ہوئی تھیں جن کا اعلان اس وقت کی حکومتوں نے ملک میں بجلی کی کمی کے باعث کیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ شناخت شدہ 18 آئی پی پیز کے پاور پرچیز ایگریمنٹس (پی پی اے) کو دو سال کے لیے تبدیل کرنا ہوگا جب تک مسابقتی تجارتی دو طرفہ کنٹریکٹ مارکیٹ (سی ٹی بی سی ایم) مکمل طور پر فعال نہیں ہوجاتا۔
واضح رہے کہ موجودہ معاہدہ Take or Pay پر مبنی ہے جس کے تحت حکومت ہر حال میں آئی پی پیز کو ادائیگی کرنے کی پابند ہوتی ہے۔
حکومت کی کوشش ہے کہ اب آئی پی پی پیز سے موجودہ معاہدے کو Take and Pay میں تبدیل کردیا جائے جس کے تحت جتنی بجلی کی پیداوار اور اس کی ترسیل کی بنیاد پر ہی ادائیگی ہوگی۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ چینی وزیراعظم کی آمد سے قبل چینی آئی پی پیز کے کچھ واجبات کی ادائیگی اور 5 آئی پی پیز کے ساتھ قبل از وقت منسوخ کیے گئیمعاہدوں کی مد میں ادائیگی کے سوا 18 آئی پی پیز کو اچانک ادائیگی روکنے کی کوئی بظاہر وجہ نہیں تھی۔
تاہم ایک عہدیدارنے بتایاکہ 18 آئی پی پیز کو ادائیگی پر پابندی عارضی ہے، لیکن اس فیصلے کے پیچھے وجوہات کی وضاحت نہیں کی۔
ذرائع نے بتایا کہ کچھ آئی پی پیز نے پہلے ہی باہمی طور پر اپنے معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے رضامندی دے دی ہے۔
شناخت شدہ 18 آئی پی پیز کے چیف ایگزیکٹوز میں سے ایک نے کہا کہ ہم پاور سیکٹر کے بحران سے غافل نہیں رہ سکتے اور ہم نے قومی مفاد میں ایک منصفانہ اور شفاف طریقے سے باہمی طور پر طے شدہ معاہدے پر پہنچنے کے لیے بات چیت پر اتفاق کیا ہے۔