حکومت اقتصادی وزارتوں کی کارکردگی بہتر بنانے اور ان کے مابین بہتر رابطہ کاری کےلیے ایک اداراہ جاتی میکنزم قائم کرنے اور وزیراعظم ہائوس کو آئی ایم ایف پروگرام کے نفاذ کی مانیٹرنگ کا کام بھی سونپنے پر غور ہورہا ہے۔
باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ وزیراعظم کو ان کے ماہرین کی ٹیم کے چند اہم ارکان نے بتایا ہے کہ وزیراعظم چاہیں تو ای سی سی کی صدارت خود کرنے پرغور کر سکتے ہیں۔ یہ خیال کیاجارہا ہے کہ اس سے اعلیٰ ترین سیاسی قیادت اور اقتصادی معاملات کی سمت کا اشارہ ملتا ہے۔
کابینہ ڈویژن ایک خصوصی یونٹ قائم کرنے کی تجویز پر بھی غور کر رہا ہے تاکہ ای سی سی کے فیصلوں کے نفاذ کی نگرانی ہوسکے۔ ذرائع نے کہا کہ اقتصادی نوعیت کی وزارتوں کا کام بٹا ہوا ہے جس پر بھرپور گفتگو کی گئی اور اس مسئلے کو تسلیم کیا گیا۔
چنانچہ اس غرض سے بہتر ادارہ جاتی میکنزم کی ضرورت سامنے آئی تاکہ ملک کو موجودہ اقتصادی دلدل سے باہر نکالنے کے بڑے ایجنڈے کے حصول پر ڈالا جاسکے اور پائیدار اقتصادی ترقی اور خودانحصاری حاصل کی جاسکے۔
ایک اعلیٰ حکومتی ذریعے نے بتایا کہ ’’ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ مزید سخت ادارہ جاتی میکنزم بنائے تاکہ پروگراموں اور مداخلتوں کو مربوط بنایا جاسکے۔
اس نے مزید کہا کہ’’ اقتصادی معاملات سے متعلق وزارتیں بکھری ہوئی ہیں اور یوں مختلف حصوں میں بٹ کر کام کر رہی ہیں۔ ان کے مسابقانہ نوعیت کے مقاصد ہیں اور اسی طرح ان کی کارکردگی کے اشاریے بھی مسابقانہ ہیں۔
یہ کہا جارہا ہے کہ پالیسی کی ہم آہنگی قابل پیمائش نتائج کے حصول میں ضروری سنگ میل ہے۔ وزیراعظم کو بین الوزارتی اکنامک ایکشن کمیٹی کی تشکیل کی سفارش کی گئی ہے جس کے پاس خصوصی مینڈیٹ ہو کہ وہ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں اچھی طرح سوچ بچار کی ہوئی تجاویز پیش کر سکے اور اس کے فیصلوں کا نفاذ کراسکے۔
بین الوزارتی اکنامک ایکشن کمیٹی کے حوالے سے تجویز دی گئی ہے کہ یہ خزانہ، منصوبہ بندی ، تجارت، صنعت، ریونیو، سرمایہ کاری بورڈ، پٹرولیم، بجلی، قومی غذائی سیکورٹی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارتوں کے سیکریٹریوں پر مشتمل ہو۔
وزیر اعظم نے سفارش کی کہ وہ اقتصادی تعاون کمیٹی کی صدارت پر چاہیں تو غور کر سکتے ہیں۔ اس قسم کے اقدام سے توقع کی جارہی ہے کہ یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا بالخصوص ملک کی اقتصادی بحالی کیلیے تمام اسٹیک ہولڈرز سے اور اہم کھلاڑیوں سے جس قسم کی توجہ درکار ہے وہ مل پائے گی۔
آئی ایم ایف پروگرام کے نفاذ سے متعلق وزیراعظم ہائوس کا کردار بھی زیر بحث آیا ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ جلد ہی ختم ہوجائے گا
حکومت آئی ایم ایف سے ایک اور توسیع شدہ سہولت کا پروگرام لینے پر سوچ بچار کر رہی ہے اس لیے وزیراعظم سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ وزیراعظم آفس کو اس پروگرام کے نفاذ کی نگرانی کی ذمہ داری تفویض کی جائے۔