
لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی–یونیورسٹی آف لاہور— میں طالبعلم کی خودکشی کے افسوسناک واقعے نے تعلیمی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔
جاں بحق طالبعلم اویس سلطان کو ان کے آبائی گاؤں کمالیہ میں سپردِ خاک کر دیا گیا، جہاں نمازِ جنازہ میں علاقے کے عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تدفین کے موقع پر اویس کے ساتھی طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کے نمائندے سے شکایات بھی کیں۔ساتھی طلبہ کا الزام ہے کہ اویس سلطان کو کلاس میں حاضری کم ہونے کی وجہ سے مبینہ طور پر تذلیل کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کا کہنا ہے کہ اویس اس رویے کو برداشت نہ کر سکا اور کلاس سے باہر نکلنے کے فوراً بعد اس نے عمارت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔ طلبہ کے مطابق واقعے کے وقت یونیورسٹی میں فیسٹیول بھی جاری تھا۔

دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ یونیورسٹی ترجمان کے مطابق اویس سلطان کا فیس سے متعلق کوئی مسئلہ نہیں تھا، البتہ یونیورسٹی قوانین کے مطابق اس کی حاضریاں کم ہونے کی وجہ سے اسے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ طالبعلم کو تذلیل نہیں کی گئی۔
پولیس کے مطابق اویس سلطان نے خودکشی کی ہے۔ ایس ایچ او نواب ٹاؤن کا کہنا ہے کہ واقعے سے متعلق آنے جانے اور چھلانگ لگانے کی ویڈیوز موجود ہیں۔ پولیس نے ضابطہ 174 کے تحت کارروائی مکمل کر کے لاش یونیورسٹی انتظامیہ کے حوالے کی، جو ایمبولینس کے ذریعے کمالیہ منتقل کی گئی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ واقعے کی مزید تفتیش جاری ہے اور تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس واقعے نے نجی تعلیمی اداروں میں طلبہ کے ذہنی دباؤ اور حاضری پالیسیوں پر ایک بار پھر بحث چھیڑ دی ہے۔
UrduLead UrduLead