جمعہ , نومبر 7 2025

“پاکستان نے تیل و گیس کی تلاش کا عمل دوبارہ شروع کر دیا

پاکستان نے 18 سال بعد اپنی پہلی بولی کے عمل میں 23 آف شور تیل و گیس کے بلاکس سرمایہ کاروں کو دے دیے، جس سے توانائی کے شعبے میں غیر ملکی دلچسپی میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

وزارتِ توانائی کے مطابق یہ بلاکس چار کنسورشیمز کو دیے گئے ہیں، جن کی قیادت سرکاری ادارے آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (OGDCL)، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (PPL)، میری انرجیز اور ترکی کی نیشنل آئل کمپنی “ترکیئے پٹرولری انونیم اورتاکلی” (TPAO) کر رہے ہیں۔ ان کنسورشیمز نے ابتدائی مرحلے میں 8 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، جو ڈرلنگ کے آغاز پر ایک ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

یہ بلاکس تقریباً 53,500 مربع کلومیٹر پر محیط ہیں اور پاکستان کی اس کوشش کا حصہ ہیں جس کا مقصد تیل و گیس کی مقامی پیداوار میں اضافہ کر کے 17.5 ارب ڈالر کی توانائی درآمدی لاگت کو کم کرنا ہے۔ پاکستان اپنی ضروریات کا 85 فیصد خام تیل، 29 فیصد گیس، اور نصف سے زیادہ ایل پی جی درآمد کرتا ہے۔

اپریل میں OGDCL، PPL، TPAO اور میری انرجیز کے درمیان ایک مشترکہ معاہدہ ہوا تھا تاکہ پاکستان کے 300,000 مربع کلومیٹر کے آف شور زون میں تیل و گیس کے ذخائر تلاش کیے جا سکیں۔ یہ زون متحدہ عرب امارات، عمان اور ایران کی سرحد سے متصل ہے۔ تاہم 1947 سے اب تک صرف 18 کنویں کھودے گئے ہیں، جس سے ملک کے ہائیڈروکاربن وسائل کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے۔

جون میں پاکستان آئل فیلڈز لمیٹڈ (POL) اور OGDCL نے مکوری ڈیپ-03 کنویں میں نئی دریافت کا اعلان کیا، جس سے یومیہ 2,112 بیرل کنڈینسیٹ اور 22.08 ملین مکعب فٹ گیس حاصل ہوئی۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے آف شور ذخائر کو مکمل طور پر استعمال کرنے کے لیے کم از کم 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی، جب کہ اگلی دہائی میں 10 فیصد ذخائر نکالنے کے لیے 25 تا 30 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔

تاہم سیکیورٹی خدشات، دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکام اب بھی بڑے چیلنجز ہیں۔ بلوچستان اور سندھ جیسے وسائل سے مالا مال علاقوں میں منصوبوں میں تاخیر اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ہچکچاہٹ ان خطرات کی عکاسی کرتی ہے۔

پاکستان کی توانائی حکمتِ عملی میں چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) مرکزی حیثیت رکھتی ہے، جس کے تحت 62 ارب ڈالر کے منصوبے جاری ہیں۔ ان میں 1,320 میگاواٹ ساہیوال اور پورٹ قاسم کول پاور پلانٹس، 720 میگاواٹ کروٹ ہائیڈرو منصوبہ اور متعدد ہوا و شمسی توانائی منصوبے شامل ہیں۔

اگرچہ سی پیک نے توانائی اور بنیادی ڈھانچے میں بہتری لائی ہے، مگر اس کے نتیجے میں پاکستان کا بیرونی قرضہ بڑھ کر 269 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، جس میں 87.4 ارب ڈالر بیرونی واجبات شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق کمزور ٹیکس نظام اور محدود محصولات کی بنیاد حکومت کو قرضوں پر انحصار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

اس کے باوجود 23 آف شور بلاکس کی نیلامی پاکستان کے لیے توانائی خودکفالت کی سمت ایک اہم پیش رفت ہے، جو مقامی وسائل کے استعمال اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے نئی راہیں کھول سکتی ہے۔

About Aftab Ahmed

Check Also

پاکستان کو 8 وکٹوں سے شکست، سیریز 1-1 سے برابر

جنوبی افریقا نے دوسرے ایک روزہ میچ میں وکٹ کیپر بیٹر کوئنٹن ڈی کوک کی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے