
برطانیہ میں زیرِ آزمائش گیلیری ٹیسٹ نے 50 سے زائد اقسام کے کینسر کی ابتدائی تشخیص میں مؤثر نتائج دیے، این ایچ ایس ٹرائل کے مطابق یہ خون میں کینسر خلیوں کے ڈی این اے کے نشانات علامات سے قبل ہی پہچان لیتا ہے۔
گیلیری بلڈ ٹیسٹ، جو کہ امریکی کمپنی گریل کی جانب سے تیار کیا گیا ہے، برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) کے زیرِ نگرانی ہزاروں افراد پر آزمایا جا رہا ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق یہ جدید ٹیسٹ خون میں پائے جانے والے خلیوں کے مائیکرو ڈی این اے (cell-free DNA) کے تجزیے سے دو تہائی تک درستگی کے ساتھ کینسر کی موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس تحقیق میں 50 سے زائد اقسام کے کینسر کو ہدف بنایا گیا، جن میں پھیپھڑوں، آنتوں، چھاتی، لبلبے اور جگر کے کینسر جیسے خطرناک اور تیزی سے پھیلنے والے امراض شامل تھے۔ گیلیری ٹیسٹ کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی یہ صلاحیت ہے کہ یہ بیماری کی شناخت اس وقت بھی کر لیتا ہے جب مریض میں بظاہر کوئی علامات موجود نہیں ہوتیں۔ اس سے قبل کینسر کی ابتدائی تشخیص کے لیے زیادہ تر مریضوں کو علامات ظاہر ہونے کے بعد ہی طبی ٹیسٹ تجویز کیے جاتے تھے۔
ماہرین کے مطابق یہ کامیابی کینسر کے خلاف عالمی جدوجہد میں ایک نمایاں سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ این ایچ ایس کی جاری ٹرائل میں تقریباً 1,40,000 افراد شامل ہیں، جن کے خون کے نمونے سالانہ بنیادوں پر لیے جا رہے ہیں۔ ابتدائی نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ ٹیسٹ نے دو تہائی ایسے کیسز میں درستگی سے نشاندہی کی جہاں کینسر واقعی موجود تھا، جبکہ بعض صورتوں میں اس نے غلط مثبت (false positive) نتائج کو بھی محدود رکھا۔
پروفیسر پیٹر ساسینی، جو اس ٹرائل کے مرکزی محققین میں شامل ہیں، کے مطابق اگر یہ نتائج بڑے پیمانے پر درست ثابت ہوتے ہیں تو گیلیری ٹیسٹ مستقبل میں قومی اسکریننگ پروگرام کا حصہ بن سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کے ٹیسٹ کے ذریعے ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں کیونکہ کینسر کی جلد تشخیص ہی اس کے علاج کو مؤثر بناتی ہے۔
این ایچ ایس کے چیف ایگزیکٹو نے بھی اس تحقیق کو صحت عامہ کے لیے “انقلابی پیش رفت” قرار دیا ہے۔ برطانیہ میں ہر سال تقریباً 3.7 لاکھ افراد میں کینسر کی تشخیص ہوتی ہے، جن میں سے تقریباً نصف کیسز اُس وقت سامنے آتے ہیں جب بیماری پہلے ہی خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکی ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر گیلیری جیسے بلڈ ٹیسٹ عام سطح پر دستیاب ہو جائیں تو نہ صرف اموات کی شرح میں نمایاں کمی آ سکتی ہے بلکہ علاج کے اخراجات میں بھی خاطر خواہ بچت ہو گی۔
اس ٹیسٹ کی تکنیکی بنیاد circulating tumor DNA (ctDNA) پر ہے — یعنی وہ جینیاتی مواد جو کینسر خلیے خون میں چھوڑ دیتے ہیں۔ جدید جینومک تجزیے کے ذریعے ان ڈی این اے ٹکڑوں کو پہچان کر اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ آیا مریض کے جسم میں کینسر موجود ہے اور اگر ہے تو اس کا ممکنہ ماخذ کون سا عضو ہو سکتا ہے۔
ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگرچہ ابتدائی نتائج حوصلہ افزا ہیں، مگر اس ٹیسٹ کو عام استعمال سے قبل مزید کلینیکل آزمائشوں کی ضرورت ہے تاکہ اس کی درستگی، لاگت، اور عوامی سطح پر نفاذ کے امکانات کا تفصیلی جائزہ لیا جا سکے۔
گیلیری ٹیسٹ کو فی الحال نجی سطح پر کچھ ممالک میں محدود پیمانے پر دستیاب کرایا گیا ہے، مگر این ایچ ایس ٹرائل کے حتمی نتائج کی بنیاد پر یہ برطانیہ میں باقاعدہ قومی اسکریننگ پروگرام کے طور پر متعارف کرایا جا سکتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو مستقبل میں کینسر کی ابتدائی تشخیص کے لیے یہ ایک نیا عالمی معیار قائم کر سکتا ہے۔
گیلیری ٹیسٹ کی ابتدائی کامیابی کینسر کے خلاف عالمی مہم میں امید کی ایک نئی کرن ثابت ہو رہی ہے۔ اگر یہ آزمائشیں مکمل کامیابی سے ہمکنار ہوئیں، تو آنے والے برسوں میں یہ ٹیسٹ کینسر کے علاج کے منظرنامے کو ہمیشہ کے لیے بدل سکتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون قارئین کی معلومات کیلئے شائع کیا گیا ہے۔ صحت سے متعلق امور میں اپنے معالج کے مشورے پر عمل کریں۔
UrduLead UrduLead